تازہ اسپیشل فیچر

لیلۃ القدر……اجرِ عظیم کی رات

لاہور: (مفتی محمد وقاص رفیع) قرآن مجید اللہ کی ایسی مقدس کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، قرآن مجید دنیائے انسانیت کیلئے رشدو ہدایت کا وہ سر چشمہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے 23 برس کے عرصہ میں نبی کریمﷺ پر وحی کی صورت میں نازل کیا۔

ایک دن حضورﷺغارِ حرا میں اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک آپﷺ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتہ نے آ کر کہا ’’پڑھو(اے نبیﷺ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا (سورہ العلق، آیت نمبر 1 تا 5) اور وحی کا اختتام عہد رسالت کے آخر میں اس آیت کے ساتھ ہوا۔’’آج کے دن میں نے مکمل کر دیا تمہارا دین تمہارے لئے اور میں نے پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے‘‘(سورۃ المائدہ:3)

قرآن مجید انسانوں کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے جو اُس نے اپنے آخری نبیﷺ کے ذریعے نسل انسانی تک پہنچایا اس کے بھیجنے والے کی کبریائی و بزرگی اور جن پر بھیجا گیا اُن کی عظمت و سر بلندی اور خود اپنے موضوع کی اہمیت و خوبی کے باعث اس کا نام لیتے وقت اس کو قرآن مجید کہتے ہیں، چونکہ اللہ کی یہ آخری کتاب عزت بزرگی اور دانائی کی باتوں سے بھری پڑی ہے اس لئے اس کے ساتھ اس کی خوبیوں کو بھی ملا کر نام لیا جاتا ہے، قرآن کریم اللہ کے احکام و ہدایات کو لے کر نازل ہوا اور اس کی حفاظت بھی اللہ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔

قرآن مجید کی اوّلین آیات غار حرا میں حضرت جبرائیلؑ لے کر رمضان المبارک میں لیلۃ القدر میں نبی کریمﷺپر نازل ہوئیں، جس رات میں اللہ کا آخری پیغامِ ہدایت نازل ہونا شروع ہوا اس سے بڑھ کر خیر و برکت والی رات دور فلک نے نہ دیکھی ہوگی اور نہ دیکھے گا، سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 185 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘۔ شب قدر کی فضیلت سورہ دخان کی آیت نمبر 3 میں فرمائی گئی ہے ’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے‘‘۔ یعنی رمضان المبارک کی ایک رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اْسے لیلۃ القدر یا شب قدر کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں لیلۃ القدر (شب قدر) کی عظمت کی چار بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں، (1)نزول قرآن، (2) نزول ملائیکہ،(3) ہزار مہینوں سے افضل رات، (4) پوری شب سلامتی اور رحمت۔ واضح رہے کہ یہ شب مبارک اس قدر اہمیت وفضیلت والی ہے کہ اس کی ایک رات کی اخلاص کے ساتھ عبادت اہل ایمان کیلئے 83 برس چار ماہ کی عبادتوں سے بھی افضل ہے، یہ تو صرف کم از کم حد بیان ہوئی ہے، ہزاروں مہینوں سے کس قدر افضل ہے اس کی مقدار اللہ تبارک وتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔

’’لیلۃ القدر‘‘ عربی زبان کے لفظ ہیں، لیل کے معنی ’’رات‘‘ اور قدر کے معنی ’’بزرگی اور بڑائی‘‘ کے ہیں، لیلۃ القدر (شب قدر) یعنی بڑائی اور بزرگی والی رات۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’قدر کے معنی مرتبے کے ہیں، چوںکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف ومرتبے کے لحاظ سے بہت بلند ہے، اسی لیے اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔

اس رات کو شب قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نہایت قابل قدر کتاب (قرآن مجید)، قابل قدر امت کیلئے حضورﷺ کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ القدر میں لفظ ’’قدر‘‘ تین مرتبہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر)۔

شب قدر کے حصول کا سب سے اہم سبب رحمۃ اللعالمین، حضورﷺ نے اپنی امت کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی عمروں سے آگاہ فرمایا جو کہ بہت طویل تھیں، آپﷺ نے سوچا کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، جبکہ میری امت کے لوگوں کی عمریں بہت تھوڑی، اگر وہ نیک اعمال میں ان (پہلی امتوں) کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن ہے،تو اسی کی تلافی میں یہ رات عطا کی گئی۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب لئے ہیں ایک تو یہ کہ پورا قرآن پاک حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور حالات و واقعات کے مطابق حضرت جبرائیلؑ اللہ کے حکم سے وقتاً فوقتاً اس کی آیات اور سورتیں حضور نبی کریمﷺ پر نازل فرماتے رہے۔ جبکہ امام شعبیؒ کے قول کے مطابق قرآن کے نزول کی ابتدا لیلۃ المبارکہ سے ہوئی۔

سورۃ القدر آیت 1تا 5 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے،فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کا ہر حکم لے کر اُترتے ہیں، وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘۔

لیل کے معنی عربی میں رات کے ہیں اور قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لئے ہیں، لیلۃ القدر کے معنی یہ ہوئے وہ رات جس میں رب العزت تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کیلئے اپنے فرشتوں کے سپر د کرتے ہیں،اس مطلب کی تاکید سورۃ دخان کی آیت 5 سے بھی ہوجاتی ہے’’اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے‘‘جبکہ امام زہری ؒقدر کے معنی تقدیر کے بجائے عظمت و شرف بتاتے ہیں۔وہ اس لئے کہ وہ رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔

یعنی اس رات کا عمل ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہے، ملائکہ سے مراد فرشتے اور روح سے مراد حضرت جبرائیلؑ ہیں، جن کے فضل و شرف کے باعث ان کا ذکر فرشتوں سے علیحدٰہ کیا گیا ہے، البتہ فرشتے اور جبرائیل امینؑ خود نہیں آتے بلکہ وہ اپنے رب کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں، یہ خیر و برکت کا سلسلہ شام سے لے کر صبح تک پوری رات جاری رہتا ہے۔

شب قدر کی سب سے بڑی فضیلت تو وہی ہے جو قرآن پاک نے بیان کی ہے اس ایک رات کی عبادت تراسی سال اور چار ماہ کے عبادت سے بھی بہتر ہے، لیکن اس کی بھی کوئی حد مقرر نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہٰی ہے جبرائیلؑ کے ساتھ دنیا میں اُترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں، سوائے اس شخص کے جو شرابی ہو، شرک کرتا ہو۔

ایک دن صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! پہلی امتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں اس لئے ان کو عبادت کا وقت زیادہ مل جاتا تھا جبکہ ہماری عمریں نسبتاً کم ہیں اس لئے عبادت کیلئے وقت کم ملتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’آپ لوگوں پر رب العزت نے بے حد فضل وکرم فرمایا ہے کہ رمضان المبارک کی شب قدر کی عبادت کا درجہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک میں شب قدر کی تلاش اور اس میں دلجمعی کے ساتھ عبادات کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

مفتی محمد وقاص رفیع اسلامک ریسرچ سکالر ’’الندوہ‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد سے وابستہ ہیں۔