تازہ اسپیشل فیچر

کراچی کنکریٹ کا جنگل

کراچی: (رطابہ عروس) "بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی رے گھوڑا گاڑی" 1945 میں احمد رشدی کی آواز میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے اس گانے نے شہر قائد کی مقبولیت میں ایک جان ڈال دی تھی۔

ویسے تو 1876 میں جب قائد اعظم محمد علی جناح کی کراچی میں پیدائش ہوئی تو اس وقت بھی یہ ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا، برطانوی فن تعمیر عمارتیں آج بھی کراچی کو دیگر شہروں سے مختلف بناتی ہیں جو سیاحت کا مرکز بن رہی ہیں۔

بندرگاہ کے گرد بڑا تجارتی مرکز

ساحل پر ہونے کی وجہ سے یہ شہر آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک تجارتی مرکز بنتا گیا، اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا، پاکستان کا دار الحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ صوبہ سندھ کے پہلے برطانوی گورنر چارلس نیپئرنے 1843 میں کہا تھا کہ کراچی ایشیاء کی دلہن بنے گا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ مچھیروں کی اس بستی پر سرچارلس نیپئر کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئی درست ثابت ہوگی اور آج یہ شہراونچی اونچی عمارتوں، عالیشان علاقوں، فلائی اوورز اور انڈر پاسز سے آراستہ ہو چکا ہے، اس کو اگر کنکریٹ کا جنگل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

کراچی میں آج بھی ترقیاتی پروجیکٹس تیزی سے جاری و ساری ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر مسائلستان بنتا جا رہا ہے، کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے، جدید شہر بننے کے ساتھ ساتھ اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ماحولیات سے متعلق قوانین کی دھجیاں

کراچی میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے دوران ماحولیات سے متعلق تمام قوانین کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں، ساحل سمندر سے قریب تر ایسی عمارتیں بنانے سے سمندری حیات کو بھی خطرات لاحق ہیں کیونکہ ان عمارتوں سے نکلنے والے فضلے اور سیوریج کے پانی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، چونکہ عمارت سیمنٹ، بجری، سریا اور دیگر مٹیریل سے بنائی جاتی ہے اس لیے درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ عمارت کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ زیادہ دیر تک گرم رہتی ہیں۔

فضائی سفر کرنے والے جب آسمان سے کراچی کا نظارہ دیکھتے ہیں تو بہت کم مناظر ایسے ہوتے ہیں جہاں سبزہ ہو، گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے شہری پرندوں کی چہچہاہٹ ہی سننے کو ترس گئے ہوں، صنعتی زون میں فیکٹریوں سے اٹھنے والا دھواں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، ترقی نے جہاں زندگی کو آسان بنایا ہے وہیں کئی طرح کے مسائل بھی پیدا کیے۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا اور مضر ماحول و صحت گیسوں جیسے گرین ہاؤس گیسوں، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین وغیرہ کی زیادتی کی وجہ سے درجہ حرارت میں تبدیلی آئی، ماحولیات سے متعلق قانون 1997 سے نافذ ہے اور سندھ کا ایکٹ بھی 2014 سے نافذ العمل ہے مگر بدقسمتی سے یہ شعبہ بھی بلڈر مافیا اور رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔

ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق بڑھتی فضائی آلودگی کراچی کے شہریوں کی اوسط عمر میں 4 سال تک کی ممکنہ کمی کا باعث بن سکتی ہے، پاکستان میں انسانی صحت کے لیے قلبی امراض کے بعد دوسرا سب سے بڑا خطرہ آلودگی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ہوا میں موجود خطرناک اجزاء انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، کراچی جیسے میٹروپولیٹن سٹی میں آبادی کے لحاظ سے ایئر کوالٹی مانیٹرز بھی موجود نہیں، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے نہ صرف اوسط عمر کم ہو رہی ہے بلکہ شہر کی بڑھتی آبادی تیزی سے بیماریوں کا بھی شکار ہو رہی ہے۔

سطح سمندر میں اضافہ، طوفانوں کا خدشہ

تاہم کراچی شہر بحیرہ عرب میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی براہ راست متاثر ہوتا ہے، سطح سمندر میں اضافہ، طوفانوں کا خدشہ، بارشوں میں اضافہ اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ وہ چند تبدیلیاں ہیں جو کسی بھی ساحلی شہر کو تباہ کرکے رکھ سکتی ہیں، پچھلی کچھ دہائیوں میں یہ تمام تبدیلیاں بحیرہ عرب میں دیکھی جا رہی ہیں جن کا براہ راست اثر شہر کراچی پر ہورہا ہے، اس کے علاوہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے سے سمندری پانی کی تیزابیت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے جو کراچی کی سمندری حیاتیات کے لیے مضر ہے۔

کراچی میں جگہ کی کمی کی وجہ سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا بھی ہے، دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث شہر میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے، کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق پی ایم 2.5 ذرات صحت کے لیے انتہائی مضر ہوتے ہیں یعنی آلودگی کے ایسے ذرات جن کی جسامت بہت ہی باریک یا ڈھائی مائیکرون کے برابر ہوتی ہے، ایک مائیکرون کا مطلب ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہوتا ہے۔

درختوں کی کٹائی

تاہم کوڑے کو آگ لگانا اور شہریوں میں شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے، شہر میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے لیکن شاہراہوں کو چوڑا کرنے کے لیے ان کی کٹائی سے قدرتی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں کے میدانوں، پارکوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے جو دھڑلے سے تجاوزات تعمیر کر کے شہر کے حسن کو داغدار کر رہا ہے، اس مسئلہ سے مستقبل میں ہماری نسلوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس شہر کا عالم تو اب یہ ہے کہ یہاں قبرستانوں میں لواحقین اپنے پیاروں کی قبور پر درخت لگاتے ہیں جس نے شہر خموشاں کو ڈھانپ لیا ہے، دوسری جانب شہر کے بڑے پارکوں میں شجر کاری دیکھنے کو نہیں ملتی۔

چیف میٹرولوجسٹ محکمہ موسمیات ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا ہے کسی بھی شہر یا ملک میں پلاننگ کے بغیر ترقی ناممکن ہے، سڑکیں، بڑی عمارتیں اور گھرکی چھتیں پکی ہونے کے باعث بھی گرمی ہوتی ہے، درجہ حرارت میں شدت پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی زیادہ ہے مگر گنجان آباد ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے کراچی خاص طور پر خطرے کی زد میں ہے۔

دوسری جانب سے ماہرین ماحولیات نے موجودہ صورتحال میں شجر کاری کو ناگزیر قرار دیا ہے، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم سب کو اپنے بہتر مستقبل کے لئے آج محنت کرنی ہوگی تاکہ آنے والے دور میں ایک سرسبزوشاداب شہر کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں۔

اونچی عمارتوں کے حامل شہروں کو ماحولیاتی تبدیلی کے نقصانات کے ساتھ ساتھ سمندری طوفان کے بھی خدشات لاحق ہوتے ہیں، دنیا میں آسمان بوس عمارتوں میں ہانگ کانگ کا پہلا نمبر ہے، امریکا جیولوجیکل سروے کے یونیورسٹی آف روڈ آئلینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے تحقیق میں یہ دریافت کیا کہ نیو یارک سٹی اپنی اونچی عمارتوں کے وزن سے سالانہ ایک سے دو ملی میٹر زمین میں دھنس رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے شہر نیو یارک میں تقریباً 10 لاکھ سے زائد عمارتیں ہیں جبکہ ایک سروے کے مطابق 30 لاکھ عمارتوں کی تعداد بھی رپورٹ ہوئی ہے جن کا مجموعی وزن تقریباً 764 ارب کلوگرام بنتا ہے، تاہم ہر سال چند ملی میٹر کی کمی شاید کچھ بھی نہیں لگتی ہے لیکن شہر کے کچھ حصے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماہرین نے کمی کی شرح کا حساب لگانے کے لیے اپنی ماڈلنگ کا موازنہ سیٹلائٹ ڈیٹا سے کیا جس نے زمین کی سطح کی اونچائی کی پیمائش کی، ماہرین نے وضاحت کی کہ اس تحقیق کا مقصد یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ ساحلی، دریا یا جھیل کے کنارے پر تعمیر ہونے والی ہر اضافی اونچی عمارت مستقبل میں سیلاب کے خطرے میں حصہ ڈال سکتی ہے، تاہم کراچی میں تقریبا 130 بلند وبالا ایسی بلڈنگز ہیں جن کی لمبائی کم سے کم 90 میٹر ہے اور زیادہ سے زیادہ 380 میٹر ہے، یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ عمارتیں کیوں آسمان بوس بنائی جا رہی ہے سوال یہ ہے کہ جب کثیر المنزلہ عمارتوں کو بنایا جا رہا ہوتا ہے تو وہ ادارے کہاں ہوتے ہیں جو تعمیرات سے ہونے والی آلودگی اور شہر کے سبزہ کو ختم کرنے پر ایکشن لیتے ہیں؟

بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات

ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے، 2024 میں سب سے اونچی بلڈنگ 130 منزلہ تعمیر ہونی ہے، یہ ہی نہیں بلکہ 31 کثرالمنزلہ عمارتیں بھی 2024 میں ہی مکمل ہوں گی، بہت ہی بہتر فیصلہ تھا کہ کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی برقرار رہتی جس میں شہریوں کا ہی بھلا ہوتا، اس شہر میں موجود انفرا اسٹرکچر اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے کہ شہر کے اندر یا متصل علاقوں میں نئی آبادیاں قائم کی جائیں یا اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں۔

ترقی یافتہ ممالک فلک بوس عمارتیں تو بنا رہے ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات بھی کر رہے ہیں، جیسے بلڈنگ کے فلورز، بالکونی اور چھتوں پر شجر کاری کرتے ہیں، گملے رکھتے ہیں تاکہ خطرناک گیسز سے نقصان کم ہو، اسی لیے پاکستان خصوصاً کراچی میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے سب سے ضروری چیز شجر کاری مہمات کا فروغ ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس مسئلے کے حل کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جاتے، گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھویں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی اقدامات کا فقدان ہے۔