تازہ اسپیشل فیچر

پتن مینارہ

لاہور: (شیخ نوید اسلم) تاریخی عمارتیں ہر قوم کے نزدیک بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، پتن مینارہ بھی ایک ایسی ہی تاریخی عمارت ہے جس کی تعمیر کے پیچھے باقاعدہ ایک تاریخ ہے، یہ تاریخی ورثہ اب تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے، اس کے اردگرد کی تمام زمین فروخت کر دی گئی ہے، اب اسے منہدم کر دیا جائے گا اور یہاں کاشت کاری شروع ہو جائے گی۔

رحیم یار خان سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر پتن مینارہ واقع ہے، پتن مینارہ کے اردگرد کا علاقہ کپاس کی کاشت کیلئے مشہور ہے، یہاں سے بڑی مقدار میں روئی حاصل کی جاتی ہے لیکن ان کھیت کھلیانوں کے درمیان کھڑا تاریخی ورثہ کسی کی توجہ کا مرکز نہیں، اب یہ صرف اینٹوں کا ایک مینار باقی رہ گیا ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے۔

اس تک پہنچنے کیلئے ایک ٹیلے پر مبنی سیڑھیوں سے گزرنا پڑتا ہے، یہاں محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے تختی آویزاں ہے، جس پر اسے تاریخی ورثہ قرار دیئے جانے سے متعلق عبارت درج ہے، مینار بھی آدھا زمین میں دھنس چکا ہے اور تختی پر واقع تحریر بھی واضح نہیں رہی۔

یہاں مقیم لوگ مینار کی تاریخ سے واقف ہیں اور اس کے متعلق مختلف قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں، مولوی خلیل احمد کے مطابق پتن مینار 326 قبل از مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا، جس وقت یہ تعمیر ہوا اس کے پہلو سے دریائے سندھ سے نکلنے والا ایک چھوٹا دریا گھاگرا گزرا کرتا تھا۔

اس مینار نے بہت سی ثقافتیں اور قومیں گزرتی دیکھی ہیں، یہ موہنجودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا سے مطابقت رکھتا ہے اور بدھ مت، آریان، برہمنوں کے علاوہ یہ افغان حکمران فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اہم مقام رہا، کئی حکمران دوران سفر یہاں قیام کیا کرتے تھے۔

سکندر اعظم برصغیر پر حملہ آور ہوا تو اُس نے اِس مقام پر اپنی فوجی چھاؤنی تعمیر کروائی تھی، جس کا انتظام ایک یونانی گورنر کے ہاتھ میں تھا، یونانیوں نے یہاں ایک یونیورسٹی اور کمپلیکس بھی تعمیر کروایا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس جگہ کی اہمیت میں کمی واقع ہوتی چلی گئی، پہلے چونکہ اس کے قریب سے دریا گزرا کرتا تھا بعد میں دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑ لیا اور اس میں سے نکلنے والا چھوٹا دریا بھی خشک ہوگیا جس کے بعد یہاں سے آباد کاروں نے بھی ہجرت کر لی اور یہ جگہ محض کھنڈر بن کر رہ گئی۔

1849ء میں ماہر تعمیرات کرنل منچن نے یہاں پر خزانے کی تلاش کا کام شروع کیا تھا لیکن یہ بھی مشہور تھا کہ یہ خزانہ روحانی طاقتوں کے قبضے میں ہے، اس لئے خزانے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، اس کے باوجود کرنل نے کھدائی کا عمل جاری رکھا، کہا جاتا ہے کہ وہ خزانے تک پہنچ گیا تھا انہیں اس دوران ایک راستہ مل گیا تھا، کھدائی کے جاری عمل میں یہاں مزدوروں پر اچانک غیبی حملہ ہوگیا، یوں اس سوراخ کو بند کر دیا گیا۔

کرنل منچن کی شروع کردہ خزانے کی یہ کھوج یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ تلاش کا یہ عمل جاری رہا، ریاست بہاولپور کے نواب صادق عباسی کے دور حکمرانی میں بھی خزانے کی تلاش کا کام شروع ہوا، انہوں نے اپنے وقت کے کئی جوگیوں اور روحانی پیروں کی مدد حاصل کی لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔

پتن مینار سے چند سو گز کے فاصلے پر ایک قدیم مسجد بھی ہے جسے ابوبکر مسجد کے نام سے پکارا جاتا ہے، اسے ایک مسلم حکمران محمد ابوبکر سانول سائیں نے 1849ء میں تعمیر کرایا تھا، یہ مسجد پتن مینار کے قریب آج پوری شان و شوکت سے کھڑی ہے، اس کی حفاظت کی جا رہی ہے اور یہاں پانچ وقت نماز ادا ہوتی ہے۔

مقامی طور پر کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ پتن مینار کو خوبصورتی اور دوام بخشا جائے اور اسے تاریخی ورثے کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے، اس کے ارد گرد کمپلیکس اور پارک تعمیر کیا جائے تاکہ لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں، اس سلسلے میں رحیم یار خان کے عباس زیدی نے 1993ء میں ان امور کی جانب قدم بڑھایا اور اس مقصد کیلئے کثیر زر مبادلہ بھی وقف کیا، اس سلسلے میں کام شروع کر دیا گیا پھر نہ جانے کیوں یہ منصوبہ اچانک ہی کھٹائی میں پڑ گیا۔

شیخ نوید اسلم متعدد کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’پاکستان کی سیرگاہیں‘‘ سے مقتبس ہے۔