تازہ اسپیشل فیچر

9 مئی سے 9 مئی تک!

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان تحریک انصاف اپنے قیام سے اب تک کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان تحریک انصاف ایسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ عام انتخابات میں تمام جماعتوں سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود حکومت بنانے کے قابل نہ رہی۔

یہ پاکستان کی تاریخ کا دلخراش واقعہ تھا جب ملک بھر میں کچھ جتھوں نے اپنی لیڈر شپ کے حکم پر عسکری تنصیبات پر حملہ کیا اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی، 9 مئی 2023 کے فوری بعد کور کمانڈرز اجلاس میں فورم نے یہ واضح پیغام دیا کہ فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں سے کوئی نرمی نہیں برتی جائیگی،اس کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

اس کے بعد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنسز میں بھی اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، سات مئی کو ہونے والی میڈیا بریفنگ میں پاک فوج نے ایک مرتبہ پھر پیغام دیا کہ 9 مئی کے ملزموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جا سکتی، انہیں جلد سے جلد سزا دینا ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی تو کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہوگی، انہوں نے کہا کہ 9 مئی افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کی عوام کا مقدمہ ہے، انہوں نے واضح کیا کہ فوج پر حملہ آور ہونے والوں سے بات نہیں ہوگی، ایک ہی راستہ ہے کہ یہ ٹولہ معافی مانگے، نفرت کی سیاست چھوڑے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف سمیت کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ ریاست اس معاملے کو ایک وقت کے بعد پہلے جیسی شدت کیساتھ لے کر نہیں چلے گی مگر ان کا اندازہ غلط نکلا کیونکہ ریاست یہ طے کر چکی ہے کہ اگر 9 مئی کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو ایسے واقعات مستقبل میں بھی ہو سکتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے واضح کر دیا ہے کہ اس سانحے سے متعلق فوج کا غم و غصہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا ایک سال قبل تھا، پیغام بڑا واضح ہے کہ تحریک انصاف کے 9 مئی واقعے میں ملوث کرداروں کیلئے نہ تو کسی نرمی کا امکان ہے نہ ہی مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست میں ان کیلئے کوئی گنجائش۔

9 مئی 2023 کے افسوسناک واقعے کے بعد جب گرد بیٹھنا شروع ہوئی اور ریاست نے اپنا لائحہ عمل اپنایا تو پاکستان تحریک انصاف کی تقریباً تمام بڑی لیڈر شپ نے اس داغ سے بچنے کیلئے جماعت سے راہیں جدا کر لیں بلکہ کئی اہم اراکین نے تو سیاست سے ہی توبہ کر لی، پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر حملہ اور شہدا کی یادگاروں کی توہین ایسا شرمناک فعل تھا کہ کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔

جہاں کچھ حلقے 9 مئی کے واقعات پر وضاحتیں دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں ریاست کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ 9 مئی کے واقعات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کئے گئے، سیاسی کارکنوں کی ذہن سازی کی گئی، ایسے آڈیو اور ویڈیو ثبوت بھی منظر عام پر لائے جا چکے ہیں جن میں تحریک انصاف کی قیادت کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر حساس عمارتوں پر حملہ آور ہونے کی ہدایات جاری کر رہی ہے۔

اس واقعے کے بعد ملک بھر سے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، کچھ کے کیسز فوجی عدالتوں جبکہ کچھ کے کیسز انسداد دہشتگردی عدالتوں کو بھجوائے گئے، کئی کارکنوں کو جرم ثابت ہونے پر پانچ پانچ برس قید کی سزائیں دی گئیں مگر پی ٹی آئی کی بڑی لیڈر شپ کیخلاف 9 مئی کے مقدمات کے فیصلے ہونا ابھی باقی ہیں۔

9 مئی واقعات کے فوجداری پہلو پر تو عدالتیں فیصلہ کریں گی مگر اس کے سیاسی اثرات بہت واضح ہیں جن سے جان چھڑانا پاکستان تحریک انصاف کیلئے نا ممکن ہو چکا ہےخ پاکستان تحریک انصاف کا خیال تھا کہ ایک وقت آئے گا خصوصاً 8 فروری کے بعد شاید سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی کیساتھ انگیجمنٹ شروع ہو جائے گی مگر ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا، 9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کیساتھ پارٹی کی سطح پر یا بانی پی ٹی آئی کیساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

ریاست یہ طے کر چکی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کیساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہوگی، اس کا فائدہ تحریک انصاف کی حریف سیاسی جماعتیں اٹھا رہی ہیں، اگرچہ تحریک انصاف کی حریف جماعتیں بیانیے اور مقبولیت کے معاملے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں مگر تحریک انصاف کے طرز عمل نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے کھلا میدان چھوڑ دیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار دیگر جماعتوں سے زیادہ نشستیں لینے کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے میں ناکام رہے۔

تحریک انصاف کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث انتخابات سے قبل فنکشنل لیڈر شپ وکلا گروپ کے پاس چلی گئی جس میں کئی دھڑے بن چکے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی جو مئی 2023 میں 22 افراد پر مشتمل تھی بڑھتے بڑھتے 75 افراد پر پہنچ گئی اور یہ بھی کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے، پاکستان تحریک انصاف میں فیصلہ سازی کا عمل اس حد تک متاثر ہو چکا ہے کہ کئی ہفتے گزرنے کے باوجود چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے نامزدگی کا معاملہ طے نہیں ہو سکا۔

پنجاب میں لیڈر شپ نہ ہونے کے باعث انتخابی دھاندلی کیخلاف دی جانے والی کالز پر پی ٹی آئی کیلئے کارکن باہر نکالنا مشکل ہوگیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین پارلیمنٹ بڑی تعداد ہونے کے باوجود ایک تگڑی اپوزیشن کی شکل اختیار نہیں کر سکے۔

8 فروری کے انتخابات کے بعد شہباز شریف حکومت قائم ہوئی تو کئی حلقوں کا خیال تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی، بانی پی ٹی آئی جلد جیل سے باہر آ جائیں گے جس کے بعد ایسا مومینٹم بنے گا کہ حکومت کیلئے چلنا مشکل ہو جائے گا مگر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ صورتحال یکسر مختلف ہے، بانی پی ٹی آئی کی مشکلات کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں، انہیں آنے والے کئی مہینوں جیل میں رہنا پڑ سکتا ہے۔

دوسری جانب ان کی حریف سیاسی جماعتوں کو ہر گزرتے دن سنبھلنے کا موقع مل رہا ہے، جس کا کریڈٹ تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کو جاتا ہے۔