تازہ اسپیشل فیچر

دیوارِ چین

لاہور: (اسد بخاری) انسانی معاشرے کی تاریخ زمانہ قبل از تاریخ سے ہی خانہ بدوش حملہ آوروں اور متمدن انسانی آبادیوں کے درمیان آویزشوں اور چپقلشوں کی کہانی ہے، قدیم انسانی معاشرے کے ان ابتدائی چپقلشوں کا نشان آج دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنا واضح نہیں ہے جتنا چین میں۔ خود چین کی عظیم دیوار چین انسانی معاشرے کی انہیں قدیم آویزشوں کی علامت ہے۔

یہ عظیم عجوبہ روزگار دیوار جو مہذب انسانی آبادیوں کو وحشی پن اور تاتاری خانہ بدوشوں کی یورشوں سے بچانے کیلئے تیسری صدی قبل از مسیح میں تعمیر کی گئی تھی شمالی چین کے پہاڑوں پر سے بل کھاتی ہوئی وسطیٰ ایشیا کے دور دراز علاقوں تک چلی گئی ہے، چین میں وحشی خانہ بدوش قبائل سے متمدن انسانی آبادیوں کی حفاظت کیلئے ایسی حفاظتی دیواروں کی تعمیر کی ابتدا چوتھی صدی قبل از مسیح میں ہوئی تھی۔

بعض مورخین کے نزدیک حفاظتی فصیلیں تعمیر کرنے کا آغاز چین کے شہروں کے گرد حفاظتی فصیلیں تعمیر کرنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا، تیسری صدی قبل مسیح میں چین کے عظیم ہین (Han) شہنشاہ شی ہوانگتی(Shih Huangti) نے مختلف ریاستوں میں بنے ہوئے اس ملک کو اتحاد کی رسی میں پرو کر ایک مملکت میں بدل دیا۔

221 قبل مسیح میں اسے سارے چین کا شہنشاہ تسلیم کر لیا گیا، اپنی مملکت کی شمالی سرحد کو وحشی اور تاتاری خانہ بدوشوں کے متواتر حملوں سے بچانے کیلئے اس نے 215 ق م میں ایک طویل دیوار تعمیر کرنے کا حکم دیا، اس کام کیلئے شہنشاہ نے اپنی مملکت کے ہر تیسرے شہری کو جبری طور پر اس دیوار کی تعمیر پر لگا دیا، کہا جاتا ہے کہ تین لاکھ سے زائد انسانوں نے مسلسل 10 سال تک اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔

اس دیوار کے متعلق حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر پر اٹھنے والے خرچ میں شہنشاہ کے خزانے کا تمام تر روپیہ صرف ہوگیا اگرچہ یہ دیوار صرف مٹی اور پتھروں اور جبری مشقت سے تعمیر کی گئی تھی اور اس دیوار کے صرف کچھ مشرقی حصے ہی اینٹوں سے تعمیر کئے گئے تھے۔

شہنشاہ شی ہوانگتی اس دیوار کی تعمیر اور اتحاد چین کے علاوہ تانبے کا ایک نیا سکہ جاری کرنے، ریشم کو رواج دینے اوزان اور پیمانوں کو ایک معیار پر لانے، ایک بڑی نہر اور کئی بڑی بڑی شاہراہیں تعمیر کرنے کیلئے بھی مشہور ہے، اس کے عہد میں 213ق م میں وہ فرمان جاری کیا گیا جسے کتابوں کی آتش زنی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس فرمان کے ذریعے شہنشاہ نے زراعت، طب اور کہانت کے علاوہ تمام علوم کے متعلق کتابیں تلف کر دینے کا حکم دیا تھا۔

ہین خاندان کے بعد چین پر تھوڑی تھوڑی مدت کیلئے کئی اور حکمران خاندان بر سراقتدار آئے مگر یہ سب اپنے دیگر داخلی امور میں اتنے الجھے رہے کہ ان خاندان کے کسی حکمران نے بھی اس عظیم حفاظتی دیوار کی تعمیر و مرمت پر توجہ نہ دی اور صدیاں گزر گئیں۔

1234ء میں چن خاندان (Chin Dynasty) کو چنگیز خان نے اقتدار سے محروم کر کے چین میں منگول خاندان کی بنیاد رکھی، چنگیز خان کی تاتاری افواج عظیم دیوار چین ہی کو روند کر شمالی سرحد سے چین میں داخل ہوئی تھیں، یہ چودہ سوسال میں پہلا واقعہ تھا جب صحرائے گوبی سے آنے والے خانہ بدوشوں نے اتنے وسیع پیمانے پر متمدن انسانی آبادیوں پر اپنا اقتدار قائم کیا، اس کی ایک بڑی وجہ شمالی سرحد کی حفاظتی دیوار کی شکست وریخت بھی تھی۔

1368ء میں منگ خاندان نے تاتاریوں کو چین سے نکال دیا اور شمالی سرحد کو پھر سے مضبوط بنایا، 1420ء میں اسی خاندان کے شہنشاہ ینگ لو (Yunglo) نے عظیم دیوار چین کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا۔

اس نو تعمیر شدہ دیوار کی بلندی 22فٹ سے 26فٹ (6.7 سے 8 میٹر) رہ جاتی ہے، دیوار زیادہ تر پتھروں سے تعمیر کی گئی ہے اور اس کے درمیانی خلا کو مٹی اور اینٹ روڑے سے پر کیا گیا ہے، جس پر پھر اینٹوں کا فرش بچھایا گیا ہے دیوار کی شمالی طرف کنگرہ دار مورچے رکھے گئے ہیں اور تقریباً ہر 590فٹ یا 180میٹر کے بعد نگہبانی کیلئے ایک چوکور مینار تعمیرکیا گیا ہے، جس میں وقفوں کے بعد محرابی طاقچے رکھے گئے ہیں۔

ان ہی میناروں کی چھتوں پر مشاہدے کیلئے بالا خانے بھی تعمیر کئے گئے ہیں، اہم دروں خاص طور پر پیکنگ کے شمال میں کاروانوں کی گزر گاہوں کے قریب دیوار کی دو گنا یاسہ گنا شاخیں تعمیر کی گئی ہیں جن سے یہ مقامات وحشیوں کے حملوں سے محفوظ ہو گئے تھے۔

اپنی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ یہ دیوار تقریباً 2486 میل یا 4 ہزار کلو میٹر طویل ہے، اس کی تعمیر میں تقریباً 4 کروڑ 72 لاکھ 77 ہزار 956 کیوبک فٹ (4لاکھ 46ہزار 250 کیوبک میٹر) مٹی اور تقریباً ایک کروڑ 57لاکھ 59ہزار 318کیوبک فٹ پتھر اور اینٹیں صرف ہوئی ہیں، تاریخ عالم میں انسانی ہاتھوں سے تعمیر ہونے والی یہ سب سے بڑی دیوار اور سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے، زمین کا یہ واحد انسانی تعمیر شدہ شاہکار ہے جسے چاند اور مریخ جیسے دور دراز کے سیاروں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

بنیادی طور پر دیوار چین فوجی (دفاعی) مقاصد کیلئے تعمیر کیا گیا ایک شاہکار ہے مگر اس کی تعمیر کے کئی اور بھی مقاصد ہیں جیسے پہاڑی علاقوں میں رسل ورسائل کا یہ بڑا ذریعہ ہے بصورت دیگر ان پہاڑی علاقوں میں رسل و رسائل ایک مشکل کام ہے، ایک شاہراہ کے طور پر اس دیوار کی کشادگی اتنی ہے کہ اس پر سے پانچ یا چھ گھڑ سوار ایک ساتھ گزر سکتے ہیں۔

فوجی انجینئرنگ کے اس عظیم شاہکار میں دیگر تعمیرات عالم میں پائے جانے والے جمالیاتی پہلو یا جمالیاتی آراستگی کا بہت کم خیال رکھا گیا ہے، اس کے باوجود یہ اپنے خوبصورت زمینی منظر میں بڑی بھلی لگتی ہے بلکہ ایک طرح سے ایک عظیم جمالیاتی شاہکار نظر آتی ہے۔

چینیوں کے اس خیال کی ایک زندہ مثال بھی ہے کہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر ہونے والی ہر عمارت اس خطے کے قدرتی اصولوں کی تابع ہوتی ہے جس پر وہ تعمیر کی گئی ہو، شاید اسی اصول کے تابع ہونے کی وجہ سے پہاڑی چوٹیوں پر بل کھاتی ہوئی یہ عظیم دیوار چین کے روایتی اژدھے کا روپ دھار لیتی ہے۔

اسد بخاری معروف ڈرامہ نگار اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے معلوماتی و تحقیقی مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔