تازہ اسپیشل فیچر

حکومت سولر سے خوف زدہ کیوں؟

اسلام آباد: (ذیشان یوسفزئی) گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے صارفین نیشنل گرڈ کو چھوڑ کر شمسی توانائی کی جانب راغب ہو رہے ہیں لیکن جب سے سولر کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو تیزی سے لوگ شمسی توانائی پر منتقل ہو کر مہنگی بجلی سے جان چھڑا رہے ہیں۔

اس سے حکومت کیلئے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہونے جا رہی ہے اور کبھی سولر پر ٹیکس عائد کرنے کی باتیں ہوتی ہے تو کبھی نیٹ میٹرنگ سے پیدا ہونے والی بجلی نرخ کم کرنے کی، ٹیکس لگانے کی تو حکومت نے تردید کی ہے لیکن میرے معلومات کے مطابق سولر پر پالیسی لائی جا رہی ہے، اس پالیسی کی ضرورت کیوں پڑی اور ابھی کیوں لائی جا رہی اس پر بھی بات کریں گے لیکن یہ حالت یہاں تک پہنچی کیوں؟ پہلے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

بد قسمتی سے وطن عزیز میں ہمیں ہر چیز کی یاد تب آتی ہے جب ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوتے ہیں، آپ کو یاد ہوگا جب سوئی میں گیس دریافت کی گئی تو نعرہ لگایا گیا کہ سو سال کے ذخائر موجود ہیں لیکن آج وہ ذخائر پتہ نہیں کوئی چرا کر لے گیا یا کچھ اور ہوا؟ بنیادی طور پر اس وقت وہ نعرہ ایک سیاسی اور غلط نعرہ تھا، اس کے نتیجے میں گیس کی لمبی پائپ لائن بچھائی گئی اور گھریلو استعمال کے لیے گیس کے کنکشن سستے داموں دیئے گئے پھر گیس کے نرخ وہ لگائے گئے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔

پھر گیس کے میٹر کو پاکستان کی سیاست میں استعمال کیا گیا لوگوں سے ووٹ گیس میٹر پر لئے گئے اور عوام کو گیس کا عادی کیا گیا، سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، گیس کمپنیاں فی میٹر اپنا منافع لیتی رہیں اور جو نقصان ہوتا رہا اس سے گردشی قرضہ کا پہاڑ بن گیا جو آج تین ہزار ارب سے زائد ہے، اب نہ حکومت کے پاس کوئی راستہ ہے اور لوگوں کو سستی اور بلا تعطل گیس کا عادی کیا گیا وہ بھی تنگ ہو رہی ہے، ایک جانب گیس کے بھاری بلز آرہے ہیں تو دوسری جانب وہ ایل پی جی کو خریدنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں لوگوں کو سی این جی کے فوائد بیان کرنا شروع ہوئے، پاکستان کے لوگوں نے سپیڈ آف لائٹ سے گاڑیوں میں سی این جی ٹینکس لگائے، اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کی گئی، سی این جی سٹیشنز بنائے گئے لیکن مجموعی طور پر بیس سال نہیں ہوئے اور وہ تجربہ اتنی بری طرح ناکام ہوا کہ اب حکومت کے پاس کوئی چارہ موجود نہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق انفراسٹرکچر سمیت 450 ارب روپے تک کا نقصان ہوچکا ہے۔

بالکل یہی صورتحال شمسی توانائی کی بھی ہے، 2017 میں ایک پالیسی لائی گئی لوگوں کو نیٹ میٹرنگ کی جانب راغب کیا گیا کچھ لوگ سولر پر نیٹ میٹرنگ کے تحت منتقل ہوئے کچھ لوگوں نے بیٹری بنک والے سولر لگائے لیکن وقت گزرتا گیا اور 23-2022 آن پہنچاجس میں بجلی کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہوا تھا صارفین کیلئے بجلی کے بلز کی ادائیگی مشکل تھی اور حکومت کے پاس بھی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

کیپٹی پیمنٹس کی ادائیگی 2400 ارب روپے تک کے گردشی قرضے، عالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ، بجلی کا بوسیدہ تقسیمی اور ترسیلی نظام اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھ کر حکومت نے بوجھ صارفین پر ڈالنے کا ہی فیصلہ کر لیا، قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ وزارت توانائی کے ماتحت اداروں کے رویوں سے بھی لوگ تنگ آچکے، 1 لاکھ 70 ہزار سے زائد میٹر کے کنکشن التوا کا شکار ہیں، ایسے میں بجلی کی خریداری کیسے ممکن ہوسکے۔

لیکن کچھ تدبیر عوام کی بھی کام آتی ہے عالمی مارکیٹ میں سولر کی قیمتوں میں کمی ہوئی، شمسی توانائی کی بدلتی ٹیکنالوجی نے رہے سہے فرق کو ختم کیا اور سولر کی قیمتوں میں تاریخ کی بلند ترین کمی ہوئی، جہاں فی واٹ 130 روپے سے اوپر ملتا تھا اب وہ 35 روپے تک مارکیٹ میں دستیاب ہے لہٰذا سولر پر صارفین کی منتقلی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

نیپرا ایک سال سے وزارت توانائی کو اس خدشے سے خبردار کرتی رہی لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اب جب پانی سر سے گزر چکا ہے تو وزارت توانائی کے پاس کوئی حل موجود نہیں ماسوائے کہ حکومت جو نیٹ میٹرنگ کے تحت 19 روپے 36 پیسے فی یونٹ بجلی خریدتی ہے اس کو کم کر کے 8 سے دس روپے فی یونٹ تک کیا جائے۔

لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ کیا اس سے سولر پر منتقلی رک جائے گی، جواب ہے نہیں۔ کیونکہ عام صارف جس کے گھر میں صرف پنکھے، بلب اور ریفریجریٹر ہوں اس کیلئے پانچ کے وی سولر کافی ہے یا اگر کوئی اے سی بھی چلاتا ہے تو دس کلو واٹ کافی ہے، یوں دن کو شمسی توانائی استعمال کر کے رات کے اوقات میں اگر حکومت سے بجلی بھی خریدی جائے تو بجلی کا بل انتہائی مناسب آتا ہوگا۔

اس صورتحال میں چاروں طرف اگر کوئی پھنس چکا ہے تو وہ حکومت ہے اور اس بحرانی کیفیت کے ذمہ دار بھی یہ لوگ خود ہیں کیونکہ یہاں پر کل کا نہیں سوچا جاتا اور جب وقت سر پر آجاتا ہے تو جلدی میں ایسے فیصلے لئے جاتے ہیں جس کا نقصان آنے والی نسلیں برداشت کر رہی ہوتی ہیں۔