گھروں میں برکت کے 12 اصول
لاہور: (پروفیسر محمد وحید الزمان) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دارِ فانی میں بھیج کر زندگی کے طور طریقے سکھا دیئے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو اور ضروریات زندگی کو انتہائی احسن انداز میں پورا کرے، انسانی زندگی کے معاملات ، صحت، کامیابی، کاروبار اور دیگر میدانوں میں مدد کیلئے اللہ نے اپنے محبوب بندوں میں سے چند بندوں کا انتخاب کیا جنہیں ہم انبیاء کہتے ہیں۔
ان کے بتائے ہوئے ہر طور طریقے میں نہ صرف برکت ہے بلکہ زندگی کی فلاح اور کامیابی پوشیدہ ہے، انسان کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا ہونا ہوگا، اسلامی تعلیمات میں زندگی اور گھر کے سکون کیلئے چند اصول بیان کئے گئے ہیں گویا کوئی انسان اگر ان پر عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں سکون پائے گا، ان اصولوں کو ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے :
بسم اللہ اور ذکر الہٰی کا اہتمام:انسان گھر میں داخل ہو، گھر میں کسی بھی کام کو سر انجام دے تو وہ فوراً بسم اللہ پڑھے اس کام کو کرنے سے قبل اور ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مشغول رہے، جدید دور ہے تو اکثر لوگ اپنے وقت کو گزارنے کیلئے فون کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں جس سے نہ صرف وقت ہاتھ سے جا رہا ہے بلکہ نیکی کرنے کے بھی لمحات انسانی ہاتھ سے پھسلتے جا رہے ہیں کوشش اور اہتمام اس بات کا کرنا چاہئے کے جب بھی گھر میں کسی بھی کام میں مصروف ہوں، استغفراللہ ، اللہ اکبر، الحمد اللہ ، یا حی یا قیوم ، وغیرہ اذکار کو نہ صرف خود اپنی زبان پر جاری رکھیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس بات کی ترغیب دیں۔
وقت پر فرض نماز ادا کرنا: سورۃ المدثر میں اللہ تعالیٰ نے ایک جنتی اور جہنمی کا مکالمہ بیان کیا ہے جس میں جنتی جہنمی سے سوال کرتا ہے کہ کون سی چیز ہے جو تمہیں جہنم میں لے کر آئی ہے تو اس پر وہ جواب دیتا ہے کہ ’’ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘ ہم نماز نہ پڑھنے والوں میں سے یہ تو وہ لگ ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اللہ تعالیٰ نے جو نماز پڑھتے ہیں لیکن اس میں سستی کرتے ہیں وقت ضائع کرتا ہے اور قصداً نماز کو دیری سے پڑھتے ہیں ان کے متعلق بھی ارشاد فرمایا :’’ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ (4) اَلَّـذِيْنَ هُـمْ عَنْ صَلَاتِـهِـمْ سَاهُوْنَ (5) پس ان نمازیوں کیلئے ہلاکت ہے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔‘‘
گویا یہ نماز تو پڑھتے ہیں ان میں اکثر غفلت میں پڑ جاتے ہیں ان کیلئے بھی خرابی ہے، لحاظہ گھر میں برکت چاہتے ہیں تو اکثر نماز کا اہتمام گھر میں کیا کریں، نوافل، سنن، تو لازماً گھر میں ہی ادا کیا کریں، گھر میں نوافل و سنن پڑھنے کے بہت سے فوائد ہیں ایک تو بچوں کو دیکھ کر نماز کی ترغیب ملتی ہے دوسرا گھر میں برکت رہتی ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام: تیسرا اصول گھر میں برکت کیلئے قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام ہے اگرچہ تھوڑا ہی کیا جائے لیکن روز کی بنیاد پر کیا جائے آپ چاہے ایک صفحہ تلاوت کریں لیکن تلاوت روز کی بنیاد پر ہو، ہو سکے تو اپنے بچوں کو ایک صفحہ روزانہ تلاوت کا سنائیں تاکہ ان میں قرآن مجید کی تلاوت کا شوق پیدا ہو۔
قرآن مجید کی کوئی بھی سورۃ تلاوت کریں گھر میں برکت کا ہی باعث بنتی ہے، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:«لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ (صحیح مسلم)‘‘
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فریاما: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، یقینا شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے جہاں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے“ یعنی گھروں میں نماز اور تلاوت قرآن کا اہتمام کیا کرو، اہل علم فرماتے ہیں کہ روزانہ رات عشاء کی نماز کے بعد جو شخص سورۃ واقعہ کی تلاوت کرتا ہے اللہ اُس کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے، صبح صبح سورۃ یٰسین کی تلاوت بھی کرنی چاہیے جمعۃ المبارک کو سورہ الکہف کی تلاوت کرنی چاہیے۔
اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ سے متعلق ارشاد فرمایا: ’’اور زاد راہ (یعنی راستے کا خرچ) لے لیا کرو یقیناً سب سے بہتر رخت سفر تقویٰ ہے اور اے اہل عقل! مجھ سے ڈرتے رہو‘‘ (البقرہ:197)، پھر ارشاد ہوا کہ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے (الحجرات:13)۔
گھر میں برکت کیلئے چوتھا عمل یہ ہے کہ انسان اللہ سے جس طرح ڈر کے ، یا اسکی محبت میں، مجلس میں ، مسجد میں سفر میں تقویٰ اختیار کرتا ہے ویسے ہی گھر میں جب وہ تنہائی میں ہو جب اسے کوئی دیکھ نہ رہا ہو سوائے رب کائنات کے اس وقت بھی وہ تقویٰ اختیار کرے اپنی بیوی، بچوں، والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کے محض اللہ کی رضا کی خاطر یہ عمل بھی گھر میں برکت کا سبب ہے۔
کھانا اکٹھے ہو کر کھانا: اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب انسان مل کر کھانا کھاتے ہیں تو اللہ عزوجل اس میں برکت ڈال دیتا ہے اور پھر جب افراد گھر کے ہوں، والدہ ہو والد ہو ، میاں بیوی ، بچے بہن بھائی سب مل بیٹھ کر ایک جگہ اہتمام کے ساتھ اللہ کے نام سے شروع کریں تو برکت کا کیا عالم ہوگا۔
جدید دور میں یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے اب اگر کوئی اپنے کمرے میں بیٹھا ہے تو وہ وہاں ہی کھانا کھائے گا، اگر کوئی سٹڈی روم میں ہے تو وہ وہاں ہی کھانے کا اہتمام کرے گا والدین الگ بیٹھ کر کھا رہے ہوتے ہیں ایسا کرنا برکت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَحَبُّ الطَّعَامِ إِلَی اللّٰہِ مَا کَثُرَتْ عَلَیْہِ الْأَیْدِيْ۔ (صحیح الجامع صغیر) اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پیارا کھانا وہ ہے جس پر ہاتھوں کی کثرت ہو، یعنی جہاں لوگ زیادہ ہوں آگے آپ نے ارشاد فرمایا : قَالَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ! إِنَّا نَأْکُلُ وَلَا نَشْبَعُ؟قَالَ: فَلَعَلَّکُمْ تَفْتَرِقُوْنَ؟ قَالُوْا: نَعَمْ! قَالَ: فَاجْتَمِعُوْا عَلیٰ طَعَامِکُمْ، وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ، یُبَارَکْ لَکُمْ فِیْہِ۔(سنن ابی داوود) صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کھاتے ہیں مگر سیر نہیں ہوتے؟ تو فرمایا: شاید تم الگ الگ ہو کر کھاتے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا: ہاں جی! فرمایا: اپنے کھانے پر اکٹھے ہو جاؤ اور اس پر اللہ کا نام لو، اس میں تمہارے لئے برکت ڈالی جائے گی۔
رزق کی تلاش میں صبح جلدی نکلنا: اللہ تعالیٰ نے رزق کی تقسیم کے اوقات کار مقرر تو نہیں کئے لیکن اسلامی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند ایسے اوقات کار ہیں جن میں اگر انسان رزق حلال کی تلاش میں نکلے تو اسے نہ صرف رزق ملتا ہے بلکہ اس کے رزق میں اللہ برکت بھی ڈالتا ہے۔
ہمارے تہذیب و ثقافت کا یہ حصہ رہا ہے کہ ہمارے بڑے صبح جلد اُٹھ جاتے تھے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد تلاوت قرآن کرتے اور پھر رزق حلال کی تلاش میں نکل پڑتے تھے یہاں تک کے وہ شام کو واپس لوٹ آتے تھے اور عشاء کی نماز کے بعد سو جاتے تھے یہ ایسا وقت ہے رزق حلال کے لیے جس میں نہ صرف انسان زیادہ سے زیادہ اللہ کا فضل سمیٹ سکتا ہے بلکہ اس میں برکت بھی حاصل کرتا ہے لیکن عصر حاضر میں تمام اوقات کار بدل چکے ہیں لوگ اب فجر کے وقت سوتے ہیں اور رات ساری جاگتے ہیں۔
ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے گھروں میں چار سے پانچ افراد کمانے والے ہیں لیکن پھر بھی برکت نہیں جبکہ ہمارے اجداد میں محض ایک شخص کمانے والا ہوتا تھا اور پورے گھر کو ایک ہی فرد کافی رہتا تھا، لحاظہ اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں اور رزق میں برکت ہو تو صبح جلدی اُٹھنے کی عادت ڈالیں اور رات جلدی سونے کی عادت ڈالیں۔
اللہ پر توکل کرنا جیسا اس کا حق ہے: وَمَنْ يَّتَوَ کَّلْ عَلَی اللهِ فَاِنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌoالأنفال، 8 : 49،ترجمہ :’’جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو (اللہ اس کے جملہ امور کا کفیل ہو جاتا ہے) بیشک اللہ بہت غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘انسان کا کام محض کوشش کرنا ہے نتائج اسکے ہاتھ میں نہیں ہیں، وہ دن رات کوشش کرے اور اللہ پر توکل کرے اگر انسان کے ہاتھ میں سب کچھ دے دیا جائے تو عین ممکن ہے یہ دنیا ایک ہی دن میں ختم ہو جائے گھر ہو ، نوکری ہو، کاروبار ہو، الغرض کسی بھی میدان میں انسان کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے اپنے بچوں کی اور بچیوں کی تربیت اچھے سے کرے اور پھر اللہ پر بھروسے کرے ایک دن ضرور اللہ اس کے بچوں کو اعلیٰ مقام پر فائز کرے گا۔
خرید و فروخت میں ایمانداری کا ثبوت دینا: گھروں سے برکت کا اُٹھ جانے کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے گھر کے سربراہان جب کمانے کی غرض سے باہر جاتے ہیں تو خرید و فروخت میں جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، اپنے ناقص مال کو بیچنے کی غرض کے شاید یہ اچھے داموں فروخت ہو جائے وہ نقص کو چھا لیتے ہیں ہیں۔
صحیح مسلم میں حدیث مبارکہ ہے پیارے آقا علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا جس نے ہم سے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے بلکہ جو شخص جھوٹ بول کر اپنا مال فروخت کرتا ہے اللہ اس کے رزق میں سے برکت بھی اٹھا لیتا ہے اور اس حرام کے نوالے کی نحوست سے اسکی دعا بھی قبول نہیں ہوتی اور عرصہ دراز تک اسکی عبادت بھی رد کر دی جاتی ہے جو اپنے بچوں کو حرام کا نوالہ کھلاتا ہے اولاد کبھی بھی اسکی فرمانبردار نہیں بنتی۔
مالی صدقہ کرنا: امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: صدقہ وہ مال ہے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو بلکہ خیرات دینے والا اس سے قربِ الہٰی کا قصد کرے۔(راغب اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 480)
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اہمیت کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍم بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰ تَتْ اُکُلَهَا ضِعْفَیْنِ ج فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(البقرة، 2: 265)o ترجمہ : اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
صدقہ نہ صرف بلاوں کو ٹالتا ہے بلکہ انسان کے چھوٹے موٹے گناہوں کو بھی کھا جاتا ہے اور اللہ کے غضب کو بھی ٹھنڈا کرتا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: 2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِیْتَةِ السُّوْءِ.(ترمذی الزکاة، باب ما جاء في فضل الصَّدَقَةِ، 3: 52، رقم: 664)ترجمہ : بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے، جب انسان صدقہ کرتا ہے تو اس کے گھر سے بلائیں رفع ہو جاتی ہیں اور برکت آجاتی ہے،لحاظہ ہر فرد اپنے گھر میں چاہے وہ کچھ ہی رقم کیوں نہ ہو صدقہ ضرور کرے۔
صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کی خیال داری: گھروں سے برکت کے اُٹھ جانے کی ایک وجہ رشتہ داروں سے لا تعلقی اور دوری بھی ہے ہمارے ہاں اب لوگ اس طرح اپنے رشتہ داروں کو گھروں میں مدعو نہیں کرتے جس طرح قدیم ادوار میں ہوتا آیا ہے جدید دور میں ہر شخص اپنی ایک الگ حیثیت چاہتا ہے اور رشتہ داروں کے ساتھ رہنے سے گریز کرتا ہے جبکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :" میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑ کر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)"۔ (بخاری:5989، مسلم:2555، الترغیب والترہیب:3832)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :”عن أنس قال: قال رسول الله ﷺ من أحب أن یبسط له في رزقه وینسأ له في أثر فلیصل رحمه. متفق علیه.“ (مشکوٰة:419) ترجمہ:․․․”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔
اللہ کی بہت زیادہ شکر گزاری اور تعریف کرنا: ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرنا ، شکرمحض زبان سے ہی ادا نہیں کیا جا سکتا بلکہ اپنے افعال سے بھی شکر ادا کرنا چاہیے، نماز کے ذریعہ ، صدقہ و خیرات کے ذریعے اور اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک یہ تمام چیزیں اللہ کے شکر میں آتی ہیں اور ایسا بھی نہیں کہ یہ عادت ہر ایک میں موجود ہو بلکہ یہ اللہ کی نعمت ہے وہ جسے چاہے عطا فرما دے۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے: حضرتِ سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حسنِ اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جسے چار چیزیں مل گئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی مل گئی: (۱) شکر کرنے والا دل (۲) ذکر کرنے والی زبان (۳) آزمائش پر صبر کرنے والا بدن اور (۴) اپنے آپ اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔‘‘[5](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۳۵)
مستقل استغفار کا اہتمام کرنا:آخری عمل جو گھر میں برکت کا سبب ہے وہ مستقل مزاجی کے ساتھ استغفار، توبہ اور ذکر کا اہتمام کرنا ہے، انسان جتنا ذکر کرتا ہے جتنی استغفار کرتا ہے اسکو ہی فائدہ ہے، گھر میں تو برکت ہوتی ہی ہے ساتھ ساتھ اس کے اعمال میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو انسان ایسے عمل میں مستقل مزاجی اختیار کرتا ہے تو اسے دیکھ کر اس کے گھر والے بھی اس خوبصورت عمل میں شامل ہو جاتے ہیں اور اللہ اپنی نعمتوں کے انبار لگا دیتا ہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان اصولوں پر چلنے کی توفیق عط فرمائے آمین۔