تازہ اسپیشل فیچر

یوم شہادت…..سیدنا فاروق اعظمؓ

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) خلیفہ راشد ثانی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کیلئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔

سیدنا عمر بن خطابؓ تاریخِ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں، وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کر دیئے جو وحی کا حصہ بن گئے، قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔

تعارف
آپؓ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے، آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرمﷺ سے جا ملتا ہے، آپؓ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہو چکی تھیں، آپؓ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال 35 سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہو کر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔

محبوبِ خدا و مرادِ رسولؐ
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کیلئے رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمرؓ اگلے دن علی الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے (جامع ترمذی، کتاب المناقب،حدیث: 3683)۔

حضرت سیدنا عمر فاروقؓ مرادِ رسول ﷺ ٹھہرے، ایمان کی لازوال دولت تو اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا عمرؓ کی قسمت میں لکھ دی تھی تو پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی، آپؓ کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا اور چند دنوں بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن یعنی عمر بن خطاب اسلام قبول کر کے اسلام کا سب سے بڑا خیر خواہ اور جانثار بن گیا۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا: اے محمدﷺ آسمان والوں نے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔ ( ابن ماجہ: 103)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ (مستدرک حاکم: 4494)

حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرمﷺ نے ان کے سینے پر تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپﷺ یہ فرما رہے تھے ’’اے اللہ عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے، آپﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے (مستدرک حاکم: 4492)۔

آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا، وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب علانیہ خانہ کعبہ میں عبادت کرنے لگے۔

فضائل و مناقب
سیدنا عمر فاروقؓ کے فضائل میں بہت ساری احادیث وارد ہیں، ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں، حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطابؓ ہوتا (جامع ترمذی:3686)، حضرت سدیسہؓ جو کہ حضرت حفصہؓ کی خادمہ ہیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بیشک جب سے عمرؓ نے اسلام قبول کیا ہے شیطان جب بھی ان کے سامنے سے گزرتا ہے تو اپنا سر جھکا لیتا ہے (المعجم الکبیر للطبرانی:774)۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہر نبی کیلئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں، پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرائیلؑ و میکائیلؑ ہیں اور اہل زمین میں میرے وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں (جامع ترمذی: 3680 )

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود کو جنت میں پایا، وہاں میں نے ایک محل کے کونے میں ایک عورت کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا:عمرؓ کا۔ پس مجھے ان کی غیرت یاد آ گئی، اس لئے میں الٹے پاؤں لوٹ آیا، پس حضرت عمرؓ رونے لگے اور عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہﷺ کیا میں آپﷺ پر بھی غیرت کر سکتا ہوں؟ (صحیح بخاری:3477)

حضرت سیدنا عمر فاروقؓ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، یعنی آپؓ ان دس خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں جن کے بارے میں حضورﷺ نے جنت کی بشارت عطا فرمائی، حضرت عبد الرحمٰن بن حمیدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: دس آدمی جنتی ہیں، ابوبکرؓ جنتی ہیں، عمرؓ جنتی ہیں، عثمانؓ، علیؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، عبد الرحمٰنؓ، ابو عبیدہؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ (جنتی ہیں)۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہوگئے، لوگوں نے کہا اے ابو اعور! ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں، بتائیے کہ دسواں کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: تم نے مجھے خدا کی قسم دی ہے، ابو اعور (سعید بن زید) جنتی ہے۔ (جامع ترمذی: 3748)

حضور نبی اکرمﷺ نے نہ صرف آپؓ کیلئے جنت کی بشارت دی بلکہ حشر کے دن بارگاہ ایزدی میں آپؓ کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا، اس کے بھی احوال بیان فرمائے۔ حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے (ابن ماجہ: 104)۔

حضرت عمر فاروقؓ کی رائے اور قرآنی احکام کا نزول
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے، قرآن پاک کے متعدد احکامات آپؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کیلئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ حدیث مبارکہ ہے، حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی، میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہﷺ کاش ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو حکم نازل ہوا۔ (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) اور پردے کی آیت، میں نے حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی(صحیح بخاری: 4213)

حضرت قبیصہ بن جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروقؓ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی کتاب اللہ کا قاری دیکھا، نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی اللہ کے دین کا فقیہ دیکھا ہے (مصنف ابن ابی شیبہ: 31987)

آپؓ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے، آپؓ ادبیات میں ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے، ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پا لیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا، آپؓ کے شعر جاہلیت میں اصلاح کے علمبردار تھے، فنون حرب اور سپہ گری میں شجاعان عرب میں نہایت ممتاز و منفرد تھے، زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوت سے سیرابی میں بسر کیا، فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جا کر ملتے ہیں، آپؓ کے تربیت یافتہ تھے۔

علمی مقام
اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا، جب حضور نبی اکرمﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔

امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے فرامین، آپؓ کے خطوط، آپؓ کے خطبات اور توقیعات، اب تک سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، جن سے آپؓ کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحریر و تقریر کا ایک اندازہ ہوتا ہے، فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، اسی طرح آپؓ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔

دورِ فاروقیؓ کی فتوحات
آپؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں، آپؓ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران(بلوچستان) فتح کئے، آپؓ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔

حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال اور عدالتیں قائم کیں، عدالتوں کے قاضی مقرر کئے، آپؓ نے سن ہجری تاریخ کا اجراء کیا جو آج تک جاری ہے، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، دریا کی پیداوار پر محصول لگایا اور محصول مقرر کئے، حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی، جیل خانہ قائم کیا، راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا، پولیس کا محکمہ قائم کیا، جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، تنخواہیں مقرر کیں، پرچہ نویس مقرر کئے۔

مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کیلئے مکانات تعمیر کروائے، گمشدہ بچوں کی پرورش کیلئے روزینے مقرر کئے، مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے، مکاتب و مدارس قائم فرمائے، معلمین اور مدرسین کے مشاہرے مقرر کئے، تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی، وقف کا طریقہ ایجاد کیا، مساجد کے آئمہ کرام اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ (تاریخ اسلام)

شہادت کی بشارت
سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کی بشارت نبی مکرمﷺ نے خود دی، حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی اکرمﷺ کوہ احد پر تشریف لے گئے، اس وقت آپﷺ کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ، حضرت سیدنا عمر فاروقؓ اور حضرت سیدنا عثمان غنیؓ تھے، ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آ گیا، آپ ﷺ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: ’’اے احد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں‘‘(صحیح بخاری: 3483)

جنازہ وتدفین
26 ذوالحجہ 23ھ کو آپؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا، آپؓ شدید زخمی ہوگئے اور چار دن تک موت و حیات کی کشمکش میں رہے، آخر وقت پر آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہؓ سے کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو عمرؓ آپؓ کو سلام کہتا ہے اور عمر بن خطابؓ آپؓ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے، جب حضرت عبداللہؓ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی ہیں، انہوں نے حضرت عمرؓ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی، حضرت اُم المومنینؓ نے فرمایا میں نے وہ جگہ اپنی قبر کیلئے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمرؓ کو خود پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے۔

حضرت عبداللہؓ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہؓ آ گئے، آپؓ نے پوچھا کہو کیا جواب لائے ہو؟ انہوں نے کہا: آپؓ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے، یہ سن کر کہا: الحمدللہ! اللہ کا شکر ہے میری خواہش پوری ہوگئی، یکم محرم الحرام 24ھ کو اپنے بیٹے سے کہا: میری پیشانی زمین سے لگادو، اس طرح سجدے کی حالت میں جان، جان آفرین کے سپرد کر دی، آپؓ کی نمازجنازہ کیلئے جب آپؓ کا جسد اطہر تخت پر رکھا گیا تو مسلمانوں کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا، آپؓ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے۔

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظورشدہ 35 مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔