مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاست
اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں، نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔
قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں کہ 20 جنوری کو اقدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہوگی اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے دباؤ بڑھے گا، پاکستان تحریک انصاف کا مارچ 2022ء میں شروع ہونے والا ’’حقیقی آزادی‘‘ کا نعرہ اور ’’ابسولوٹلی ناٹ‘‘ کا بیانیہ ’’ اب ٹرمپ ہی کچھ کرے گا‘‘ پر آ کر رک گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اور لیڈرشپ امریکی صدر کے نمائندہ رچرڈ گرینیل کے ٹویٹس پر خوشیاں منا رہے ہیں جس میں وہ کبھی سابق وزیراعظم کی رہائی کی بات کر رہے ہیں اور کبھی حقیقی آزادی کے ٹویٹس کر رہے ہیں، ان ٹویٹس میں آتی شدت نہ صرف کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور رہنما کی جانب سے اس کی تائید، تصدیق یا تردید میں کوئی بیان نہ آنا صورتحال کو دلچسپ بنا رہا ہے۔
یہ تو اب وقت کے ساتھ واضح ہو جائے گا کہ ان ٹویٹس کی اصل حیثیت کیا ہے اور کیا اس سب معاملے کو نو منتخب امریکی صدر کی آشیر باد حاصل ہے مگر ملٹری کورٹس سے 9 مئی کے ذمہ داران کی سزاؤں کے معاملے پر مغرب سے رد عمل آنا شروع ہو چکا ہے، یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ نے فوجی عدالت کی جانب سے 25 افراد کو سزا سنانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے اس پر باقاعدہ رد عمل دیا گیا ہے، دفتر خارجہ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق سے متعلق بین الا قوامی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے اور پاکستانی قوانین بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون سے ہم آہنگ ہیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ ملٹری کورٹس کے فیصلے پاکستان کے قوانین کے تحت کئے گئے ہیں جو پارلیمان کے بنائے گئے ہیں۔
پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ہم بغیر کسی امتیاز اور دہرے معیار کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کو برقرار رکھنے کے لیے یورپی یونین سمیت اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے، اگرچہ پاکستان نے اپنا واضح مؤقف ان ممالک کے سامنے رکھ دیا ہے مگر یہ بات اپنی جگہ واضح ہے کہ موجودہ صورتحال میں مغرب کی جانب سے آنے والے اعتراضات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔
ان ممالک کو قائل کرنا ہوگا کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس سے ملنے والی سزاؤں کے بعد پاکستان کے عدالتی نظام میں نظرثانی اور اپیلوں کے فورم موجود ہیں اور پاکستان کی سپریم کورٹ نے ہی ان عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دی ہے، جس انداز سے مغربی ممالک پاکستان کے عدالتی نظام پر اچانک معترض ہو رہے ہیں کچھ حلقے اس مغربی طرزِ عمل کو کسی اور تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
جہاں ایک جانب اس مغربی دباؤ کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہیں اچانک ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک مذاکراتی عمل بھی شروع ہوگیا ہے، دیر آید درست آید، ملک سے سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے یہ مذاکراتی عمل ناگزیر ہے مگر یہ تاثر درست نہیں کہ ایسا مغرب کے دباؤ پر ہو رہا ہے۔
ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکراتی عمل خالصتاً سیاسی عمل ہے جس میں مقتدرہ کا کوئی عمل دخل نہیں، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کئی مرتبہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مذاکراتی عمل شروع ہونا ہے تو تحریک انصاف کو سیاسی قیادت کے ساتھ ہی بیٹھنا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے بھی حیران کن طور پر نہ صرف اس عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ آئندہ نشست دو جنوری کو طے ہوگئی ہے جس میں تحریک انصاف با قاعدہ اپنے مطالبات تحریری طور پر حکومت کے سامنے رکھے گی۔
سوال یہ ہے کہ اس مذاکراتی عمل میں اگر اسٹیبلشمنٹ شامل نہیں ہے تو حکومت کے پاس کتنا مارجن ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے لئے کچھ کر سکے؟ اور پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے پاس کتنا مینڈیٹ ہے؟ اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کا انحصار ایک شخصیت پر ہے اور وہ ہیں بانی پی ٹی آئی۔
اس سارے معاملے میں اگر تحریک انصاف کو سب سے پہلے کچھ چاہیے تو وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہے، بانی پی ٹی آئی کی رہائی صرف اسی صورت ہو سکتی ہے جب وہ اس بات کی گارنٹی دیں کہ وہ باہر آ کر غیر یقینی صورتحال اور سیاسی انتشار میں اضافہ کرنے کی بجائے اس نظام کو ایک مخصوص وقت تک چلنے دیں گے، انہیں اس سسٹم کو تسلیم کرنا ہوگا اور آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد کی صورتحال کے بعد آئندہ اپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا۔
بصورت دیگر حکومت کیونکر بانی پی ٹی آئی کے مطالبات تسلیم کرے گی؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ بانی پی ٹی آئی کے بیانیے کی نفی نہیں ہوگی؟ کیا بانی پی ٹی آئی اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اس سسٹم کو تسلیم کر لیں گے اور اپنی باری کا کچھ سال تک انتظار کریں گے؟اس صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ مذاکراتی عمل زیادہ دیر تک اور کسی منطقی انجام تک پہنچتا دکھائی نہیں دے رہا۔
وزیر اعظم شہباز شرف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی سے امن اور معاشی استحکام آئے گا، کسی کی نیت پر شک نہیں، خلوصِ نیت سے بات چیت کریں گے، ذاتی پسند نا پسند قوم کی خاطر قربان کر دیں۔ وزیر اعظم کا یہ بیان خوش آئند ہے۔
حکومت اس سے قبل بھی سیاسی تلخیوں کو بھلا کر بات چیت کو ہی مسائل کا حل قرار دیتی رہی ہے مگر اس مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے بانی پی ٹی آئی کا اس حکومت کو کئی برس کے لئے تسلیم کرنا ہی سب سے بڑی رکاوٹ معلوم ہوتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے خلاف مزید کیسز میں فیصلے آنے کو ہیں، جنوری کے پہلے ہفتے میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا، توشہ خانہ ٹو کیس میں بھی بانی پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔
جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی صرف مغربی دباؤ پر ہو جائے گی ان کے لئے خبر ہے کہ شاید یہ ممکن نہیں ہے، اگر کسی بیرونی قوت کی بات سنی بھی جانی ہے تو اس کے کچھ تقاضے ہوں گے، بانی پی ٹی آئی کو بھی چند قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔