لاہور: فرضی عدالتیں, جعلی فیصلے, ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اراضی اسکینڈل بے نقاب

لاہور: فرضی عدالتیں, جعلی فیصلے, ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اراضی اسکینڈل بے نقاب

جعلساز گروہ کم ازکم 50 سال پرانے جعلی عدالتی فیصلے تیارکرکے شہریوں کی لاکھوں کنال زمین ہڑپ کرچکا،سمن آبادکا ارشدچوہدری سرغنہ، کئی سال پہلے یہ دھنداشروع کیا

لاہور(محمد اشفاق سے ) ایک لاکھ93ہزارکنال کی ملکیت میں ردوبدل سامنے آگیا،نجانے اور کتنے جعلی فیصلے ؟، سب پرفریقین کے رہائشی پتے کویت کے ، متعلقہ علاقے کا پٹواری بھی فراڈمیں ملوث مافیانے 3800کنال اراضی ہتھیالی،کہیں کوئی شنوائی نہیں، سعیدباری، 200کنال پرقبضہ ہوا، سول عدالت میں کیس کیا مگر 16سال سے فیصلہ ہی نہیں آیا، میاں آفتاب لاہور۔۔۔ ’’دنیا نیوز‘‘ نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اراضی اسکینڈل بے نقاب کر دیا، فرضی عدالتوں کے جعلی فیصلوں کے ذریعے زمینوں کی خرید و فروخت میں اربو ں روپے کا فر اڈ کیا گیا،جعلسازگروہ صوبائی دارالحکومت میں کئی شہریوں کی لاکھوں کنال اراضی ہڑپ کرچکا۔ معلوم ہوا ہے کہ شہرکے علاقے سمن آباد کا رہائشی ارشدچوہدری اس گروہ کاسرغنہ ہے ،وہ اور اس کا گروہ عدالتوں کے جعلی فیصلے تیار کرنے میں مہارت رکھتا ہے ، اس مافیا نے کئی شہریوں کی لاکھوں کنال اراضی کے کاغذات میں ردو بدل کرکے انہیں جائیدادوں کی ملکیت سے محروم کر دیا، ایسا ہی ایک شہری سعید باری ہے ، جس کی 3800 کنال اراضی کی ملکیت اس گروہ نے جعلسازی سے تبدیل کر دی،اسے حقیقت کا علم تب ہوا جب اراضی فروخت کرنے کیلئے متعلقہ پٹواری سے رجوع کیا، تو بتایا گیا کہ اسکی اراضی دہائیوں پہلے دوسروں کے نام منتقل ہو چکی ہے جبکہ اس سلسلے میں کئی عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں ، چنانچہ جب تصدیق کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیا تو ماجرا کچھ اور ہی نکلا، سامنے یہ آیاکہ اس ساری جعلسازی کے پیچھے ارشد چوہدری اور اسکا گروہ کام کر رہا ہے جبکہ انہوں نے عدالتوں کے کم از کم 50 سال پہلے کے جعلی فیصلے تیار کر رکھے ہیں ، اکثرفیصلوں میں ارشد مدعی اور اس کا ساتھی ولی محمد مخالف فریق ہوتا جبکہ بعض فیصلوں میں ولی محمد مدعی اور ارشد مخالف فریق ہوتا تھا، نیز ہر جعلی فیصلے میں فریقین کے رہائشی پتے کویت کے درج تھے ، جعلی فیصلے تیار کرتے ہوئے اس گروہ سے ایسی غلطی سرزد ہو گئی جس کی وجہ سے وہ منظر عام پر آ گیا، گروہ نے 1962ء کا ایک ایسا جعلی فیصلہ تیا ر کیا جس میں عدالت کی جانب سے مدعی کو ہدایت کی گئی کہ وہ داد رسی کیلئے ایل ڈی اے سے رجوع کرے ، حالانکہ ایل ڈی اے کا قیام ہی اس فیصلے کے 13 سال بعد 1975ئمیں عمل میں آیا تھا ۔ سعید باری کے مطابق اس نے جعلسازی کیخلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش بھی کی ، مگر کہیں بھی شنوائی نہ ہو سکی اوراب اپنی ہی جائیداد کی ملکیت ثابت کرنے کیلئے 4 سال سے عدالتوں کے چکر لگانا پڑ رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں ارشد چوہدری کا ایک جھوٹ ایسے بھی پکڑا گیا کہ اس نے ایک سول جج سلمان نبی کے جج بننے سے 2 ماہ پہلے ہی کا اُنکا دستخط شدہ فیصلہ بھی تیار کر لیا ، ملزم نے یہ دھندا 14 سال پہلے شروع کیا جبکہ اب تک ایک لاکھ93ہزار کنال زمین کی ملکیت سے متعلق جعلی فیصلوں کا انکشاف ہو چکا، تاہم نجانے ایسے کتنے فیصلے اس گروہ کے پاس اب بھی موجود ہیں ۔ مزید برآں ایک اور شہری میاں آفتاب بھی اسی گروہ کا نشانہ بنے ، انکی والدہ کی 200 کنال زمین جعلی فیصلوں کے ذریعے ہڑپ کرنے کی کوشش ہوئی، 2000 میں انہیں جعلسازی کا علم ہوا تو مشکلات کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلا، میاں آفتاب نے سول عدالت سے رجوع کیا مگر 16 سال گزر گئے فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا اور زمین کی مالکن بھی انتقال کرچکی ہیں ۔ جعلی عدالتی فیصلوں سے کمائی کا گورکھ دھندا ایسا کہ نقل پر اصل کا گمان گزرتا ہے ، سارے فراڈ میں اہم کردا ر اراضی سے متعلقہ علاقے کا پٹواری بھی ادا کرتا تھا ، چنانچہ جب پراپرٹی کا اصل مالک اسے فروخت کرنے کی کوشش کرتا تو ملزم ارشد اور اسکا گروہ جعلی عدالتی فیصلہ لیکر اس پٹواری کے پاس جا پہنچتا، یوں سودا کھٹائی میں پڑ جاتا، کیونکہ جعلساز عدالتی فیصلے کے ذریعے یہ دعویٰ کرتے کہ اصل مالک وہی ہیں اور اگر انکی مرضی کیخلاف پراپرٹی فروخت کی گئی تو وہ سب کو عدالت لے جائیگا، ایسے میں اصل مالک کے پاس منہ مانگی قیمت دیکر جعلی دستاویزات خریدنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہتا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں