پرانے سروے کی بنیاد پر نئےنتائج کا حصول ممکن نہیں
مسلم لیگ ن کی مالی معاونت سے کئے گئے سروے موجودہ حقائق سے دور ہیں
(حبیب اکرم) تین اداروں کے مختلف اوقات میں کئے گئے رائے عامہ کے سروے کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن ) آج بھی اس قابل ہے کہ آئندہ 3 ہفتے بعد ہونے والے عام انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی تقریباً اتنی ہی نشستیں جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے جتنی کہ اس نے پانچ سال پہلے انتخابات میں جیتی تھیں۔ سروے کرنے والے تین مؤقر اداروں کے نام ہیں آئی پور، گیلپ اور پلس کنسلٹنٹ۔ یہ تینوں ادارے سائنسی انداز میں سروے کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ان کے سروے کے نتائج کی بنیاد پر اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔ تاہم عام انتخابات کے حوالے سے ان سروے کے مطابق کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ 3 سروے کب اور کن حالات کی میں کئے گئے ہیں۔ آئی پور کا سروے پورے ملک میں نہیں بلکہ صرف پنجاب کی حد تک محدود ہے ۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ آئی پور نے یہ سروے پاکستان مسلم لیگ ن کی مالی معاونت سے کیا اور اس کا سوالنامہ بھی اسی سیاسی جماعت کی مشاورت سے طے کیا گیا ۔ اس سروے میں ادارے نے قومی اسمبلی کے حلقے کو بنیاد بنایا اور کسی بھی حلقے میں رہنے والوں سے 3 بنیادی سوالات پوچھے گئے ۔ پہلا سوال یہ تھا کہ جواب دہندہ کون سے مسئلے کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتا ہے ۔ دوسرے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو ووٹ کرے گا اور تیسرے سوال میں یہ پوچھا گیا کہ اگر وہ پاکستان مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا چاہے تو وہ دی گئی فہرست میں کس امیدوار کو ووٹ دے گا۔ چونکہ اس سروے کا بنیادی مقصد اپنے منشور کی تیاری اور مختلف حلقوں میں ممکنہ امیدواروں کا باہمی تقابل کرنا تھا اس لیے یہ سروے الیکشن سے بہت پہلے یعنی 15اپریل سے لے کر 2جون2018تک ایسے وقت میں مکمل کیا گیا جب پنجاب اور وفاق میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ اس سروے کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141نشستوں میں سے ایک سو سے زیادہ مسلم لیگ ن باآسانی جیت سکتی ہے ۔ جب یہ سروے کیا گیا تو پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جواب دہندہ کے سامنے رکھے گئے نہ کسی آزاد امیدوار کو کسی بھی حلقے میں اس سروے میں شامل کیا گیا۔ایسے وقت میں جب کہ الیکشن کی تاریخ کا تعین ہوچکا ہے ، امیدوار سامنے آچکے ہیں، کم وبیش ہر سیاسی جماعت اپنے منشور کا اعلان کرچکی ہے اور قومی و صوبائی حلقوں میں امیدوار اپنی اپنی مہم چلا رہے ہیں یہ سروے نہ صرف اپنی اہمیت و افادیت کھوچکا ہے بلکہ اس وقت اس کے نتائج کی نمایاں اشاعت متعلقہ اشاعتی ادارے کی غیر جانبداری پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیتی ہے ۔ اگر یہ نتائج شائع بھی کیے گئے ہیں تو یہ واضح کیا جانا چاہئے کہ یہ سروے مخصوص سیاسی جماعت کی مالی معاونت سے کیا گیا ہے ۔ گیلپ پاکستان بھی ملک کا معتبر ادارہ ہے جس کا شمار ملک کے ممتاز شماریاتی اداروں میں کیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس ادارے کی ساکھ بہت بہتر ہے ۔ اس کے سروے کے مطابق قومی سطح پر 2018ئمیں پاکستان مسلم لیگ ن کو 26 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے جب کہ تحریک انصاف کو 25 فیصد رائے دہندگان اس قابل سمجھتے ہیں کہ اسے ووٹ دیا جائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سروے کے مطابق پنجاب (جہاں قومی اسمبلی کی 272میں سے 141نشستیں ہیں) میں پاکستان مسلم لیگ ن کو 40 فیصد حمایت حاصل ہے جبکہ تحریک انصاف کو 26 فیصد لوگ ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس سروے سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ سروے یکم مئی سے 6 جون 2018کے درمیان کیا گیا جب ن لیگ کی حکومتیں وفاق اور پنجاب میں برقرار تھیں۔ اس عرصے میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی حتمی طور پر نہیں ہوا تھا اور تحریک انصاف کے امیدواربھی سامنے نہیں آئے تھے اور اس سروے کی بنیاد قومی اسمبلی کے حلقوں کو نہیں بنایا گیا تھا بلکہ پنجاب کو واحد اکائی مان کر یہ سروے کیا گیا تھا۔ اس لیے یہ سروے ان مخصوص حالات میں تو صورتحال کی درست عکاسی کرسکتا ہے مگر موجودہ حالات میں زمینی حقائق کی آئینہ داری نہیں کرتا۔ پلس کنسلٹنٹ کے سروے کے مطابق قومی سطح پر تحریک انصاف کی مقبولیت 30 فیصد ہے جبکہ مسلم لیگ ن اس سے 3 فیصد پیچھے یعنی 27 فیصد پر کھڑی ہے جبکہ17فیصد رائے دہندگان کے مطابق پیپلزپارٹی ان کی پسندیدہ جماعت ہے ۔ یہ سروے بھی 13 مئی سے 28مئی 2018ئکے 15دنوں کے دوران کیا گیا۔ اس عرصے میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومتیں قائم تھیں اوریہ سروے بتاتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو 43 فیصد حمایت حاصل تھی جبکہ تحریک انصاف کے چاہنے والوں کی تعداد 34 فیصد تھی۔ اس سروے میں بھی دونوں جماعتوں کے امیدواروں کا تقابلی جائزہ نہیں لیا گیا نہ امیدواروں کی ذاتی حیثیت کو کوئی اہمیت دی گئی۔ وقت کے اعتبار سے بھی یہ سروے ایک متعین وقت پر تو صورتحال کی تصویر کشی کے لیے تو مناسب ہے مگر مستقبل کی عکاسی کے لیے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا ٹی وی نے 2 جنوری 2018ئسے ملک بھر کے انتخابی حلقوں کو بنیاد بنا کر اپنے طور پرسروے کا سلسلہ شروع کیا اور سروے کے دوران یہ احتیاط بھی برتی کہ کسی سیاسی جماعت کو کسی حلقے میں سروے ٹیم کی موجودگی کا پیشگی علم نہ ہو۔ جنوری سے شروع ہونے والے سروے 13جون2018ئتک جاری رہے ۔6 ماہ کے قریب اس عرصے میں دنیا ٹی وی کی ٹیم نے بذریعہ سڑک60ہزار کلومیٹرسے زائد سفر طے کیا اور قومی اسمبلی کے ایک حلقے کو بنیاد بنا کر عوام سے ان کے ووٹ کی ترجیح پوچھی۔ ان سروے کے مجموعی نتائج 14 اور 15 جون 2018ء کو دنیا ٹی وی پر ہی نشر کئے گئے جن کے مطابق مجموعی طور پر پنجاب میں مسلم لیگ ن کو 52 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل تھی، تحریک انصاف کو39فیصد رائے دہندگان ووٹ دینے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے ۔ جبکہ19فیصد جواب دہندگان دیگر جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی کی حمایت کررہے تھے ۔ دنیا ٹی وی نے جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کے 46حلقوں کو ایک الگ اکائی کے طور پر دیکھا تو معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کو50فیصد عوام کی حمایت حاصل تھی جبکہ مسلم لیگ ن کو 37 فیصد عوام ووٹ ڈالنے کا عندیہ دے رہے تھے ۔ اس وقت تک لاہور میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا ارادہ کئے ہوئے لوگوں کا تناسب 57 فیصد تھا جبکہ تحریک انصاف کو36فیصد لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔15 جون 2018ء کے بعد بھی وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے اختتام کے بعد بھی دنیا ٹی وی اور دنیا اخبار نے سروے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کے نتائج ڈرامائی تبدیلیوں کی خبر دے رہے ہیں۔ ان سرویز کی بنیاد پر پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آئی پور، گیلپ اور پلس کنسلٹنٹس کے سروے خاص وقت تک تو درست تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ یکسر غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ ایک معین وقت پر یہ سرویز قابل اعتماد ہوسکتے ہیں مگر نگران حکومتوں کی آمد کے بعد ان پر اعتماد ووٹر یا سیاسی جماعتوں کے لیے مہلک ہوگا۔ وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومتوں کے خاتمے کے بعد دنیا ٹی وی اور دنیا اخبار جلد ہی اپنے تازہ ترین سروے کے نتائج سے رائے دہندگان کو آگاہ کرے گا ۔