پانی کی بڑھتی کمی معاشی منصوبہ سازوں، ماہرین کی ناکامی
بھارت ہمارے پانی پر ڈیمز تعمیر کرتا رہا اور حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی طاری رکھی
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کا پانی چوری کرنے کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ اسے ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا دریائے راوی سے بھارت کے پانی چوری سے متعلق پنجاب حکومت کو علم ہے ۔ اگر ہے تو اس کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ۔ عباسیہ لنک کینال کے غریب کسانوں کا پانی چوری ہونا ان کا خون پسینہ چوسنے کے مترادف ہے ۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس کے ذریعے جہاں پانی کی اہمیت زراعت کے حوالے سے واضح کی ہے وہاں پاکستان کیلئے آنے والے پانی کی بھارت کے ہاتھوں چوری کا ذکر کرکے ڈیمز کی اہمیت کو واضح کیا ہے کیونکہ سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان میں ڈیمز کے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے جان بوجھ کر اسے ایک سیاسی مسئلہ بنا کر کنفیوژن طاری کی گئی اور تکنیکی ماہرین کے مطابق اگر کالا باغ ڈیم بروقت بنا لیا جاتا تو بجلی کا بحران آتا نہ ہم پانی کیلئے ترستے لہٰذا سوال یہ ہے کہ ڈیمز کی اہمیت محسوس کرنے کے باوجود انکی تعمیر کیونکر ممکن نہ ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس ملک کی آبی قلت اور آبی ذخائر خصوصاً ڈیمز کی تعمیر پر جس طرح آگاہی دی ہے اس کے یقیناً دور رس اثرات مرتب ہونگے ۔چیف جسٹس کا ان عوامی معاملات پر حکمرانوں کے متوازی لب کشائی کرنا بہر حال باد مخالف کے سامنے اپنا چراغ جلانا ہے جسے میاں ثاقب نثار پر عزم طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ اس ملک میں جغرافیائی اعتبار سے پانی بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے گو کہ یہ ایک ابھرتا ہوا عالمی ایشو بن چکا ہے مگر پاکستان کو جس ملک کی ہمسائیگی میسر ہے اس حوالے سے پاکستانی زرعی معیشت اور ہائیڈل انرجی اور دیگر ضروریات زندگی کیلئے یہ جینے اور مرنے کا معاملہ بن چکا ہے ۔ مگر افسوس ماضی قریب کی جمہوری حکومتوں نے اس معاملے پر مطلق بے حسی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ۔ اس ملک میں منصوبہ سازوں نے پانی ’ زرعی معیشت اور ہائیڈل انرجی کیلئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ازحد ضروری خیال کیا ہے ۔ مگر اس مسئلے کو بڑی چالاکی بلکہ سنگ دلی کے ساتھ صوبائی تعصب اور خصوصاً سندھ کے حصے کے پانی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دیا گیا بلکہ سندھ کے ڈیلٹا کو بچانے کیلئے بھی نعرہ لگایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اپنے حصے کے پانی کا 75% ضائع کر دیتا ہے ۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے ہندوستان دنیا بھر میں اپنے مؤقف کی حمایت میں لاتا ہے اور آئے روز ایک نیا بند اور ڈیم پاکستانی دریاؤں کے پانی پر بناتا ہے او رہم محض اپنے دعوؤں ’نعروں اور کمزور دلائل کے ساتھ عالمی دنیا کے سامنے اپنا کیس ہارتے چلے جاتے ہیں۔ در حقیقت یہ ہمارے معاشی منصوبہ سازوں’ماہرین آبپاشی اور مقتدر حکمرانوں کی ناکامی ہے کہ ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی ہے ، ماحولیاتی تبدیلیوں سے غیر معمولی پانی کی صورتحال ہے اور ملک کا کسان بدترین زندگی کی راہ پر قدم رکھ چکا ہے اور پاکستان تیزی سے بنجر اور صحرا بننے کی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ پاکستان کے ٹیل کے علاقے خصوصاً جنوبی پنجاب، زیریں سندھ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع تقریباً بنجر ہونے کی راہ پر ہیں ۔ ڈیمز کی تعمیر اور پانی کے چھوٹے بڑے ذخائر پر کوئی اختلاف نہیں تو پھر لازم ہو چکا ہے کہ عمران خان کی منتخب حکومت آگے بڑھے اور اس قومی فریضے کا پرچم چیف جسٹس کے ہاتھوں سے لیکر خود لہرائے اور اس جانب عمل کا کوئی ٹھوس قدم اٹھائے ۔ ماہرین کی ناکامی