پی آئی اے کے دو طیارے کھنڈر کیسے بن گئے؟
پی آئی اے اپنے یا ڈرائی لیز (طویل مدت کے لیے کرائے پر لیے گئے طیارے ) جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر کھڑے ہیں ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے مزید پیسہ خرچ کر کے نئے طیارے کرائے پر حاصل کرتی رہی ہے ۔
(بی بی سی ) ویٹ لیز پر مزید پیسے خرچ ہوتے ہیں اور پی آئی اے کھڑے طیارے کا کرایہ بھی بغیر کسی آمدن کے ادا کر رہی ہوتی ہے ۔ پی آئی اے کا ایک بوئنگ 777 طیارہ AP-BHV گزشتہ تقریباً ایک سال سے کھڑا ہے ۔ ابتدا میں انجن نہ ہونے کی وجہ سے یہ طیارہ کھڑا ہوا مگر اب حالات یہ ہیں کہ دو بار رقم کی فراہمی کے باوجود یہ طیارہ کھڑے کھڑے کھنڈر بن چکا ہے ۔ جہاں ایک سال قبل اس کے انجن لگانے اور چند دوسرے چیکس سے طیارہ قابلِ پرواز ہو سکتا تھا اب اس پر دگنا بلکہ بعض اندازوں کے مطابق تین گنا خرچ کر کے ہی یہ اڑنے کے قابل ہو گا۔ شنید ہے کہ اب اس کی سنی گئی ہے مگر یہ کب پرواز کرے گا اس بارے میں حتمی طور پر اب تک کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ کیونکہ اس طیارے کے بڑی تعداد میں پرزے اتارے جا چکے ہیں۔ دو ایئربس اے تھری ٹوئنٹی طیارے کھڑے ہیں ( AP-BLA ، AP-BLV)جن کے انجن نہیں ہیں۔ AP-BLA کے پرزے لگا کر AP-BLB قابل پرواز بنایا گیا اور اب AP-BLA کھڑا رہے گا اور پی آئی اے اس پر کروڑوں روپے ماہانہ کرایہ ادا کرتی رہے گی۔ ان طیاروں کی کمی پوری کرنے کے لیے چار اور طیارے اس ٹینڈر کے نتیجے میں حاصل کیے جائیں گے جن کا کرایہ علیحدہ سے ادا کیا جائے گا۔ پی آئی اے کے دو اے ٹی آر طیارے کھڑے ہیں جو دونوں ڈرائی لیز پر ہیں جن کا کروڑوں روپے کرایہ پی آئی اے ماہانہ طور پر ادا کر رہی ہے ۔ تکنیکی مینٹی ننس کی مد میں ادائیگی علیحدہ ہے ۔ ایک طیارہ AP-BKZ صرف ایک معمولی پرزے کی کمی کی وجہ سے گراؤنڈ کیا گیا اور پھر نہیں اڑ سکا۔ پی آئی اے کا اپنا ایک اے ٹی آر طیارہ AP-BHN مکمل طور پر ناکارہ ہو چکا ہے جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب اسے تکنیکی چیک کے لیے گراؤنڈ کیا گیا تو اس کے پرزے دوسرے طیاروں پر استعمال ہونا شروع ہوئے اور باقی طیاروں کو قابلِ پرواز رکھنے کے چکر میں ایک پورا طیارہ ناکارہ ہو گیا۔ پی آئی اے کی گزشتہ انتظامیہ نے جب اس کا جائزہ لیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ جتنے پیسے اس کو چلانے پر لگیں گے اس سے بہتر ہے نیا طیارہ لے لیا جائے یوں پی آئی اے کے ہینگر میں یہ طیارہ سالوں سے ناکارہ کھڑا ہے ۔ پی آئی اے کے ایک سابق سینئر اہلکار کے مطابق پی آئی اے کے معاملے میں دو بڑے مسائل ہیں۔ایک انجینئرنگ میں سرمایہ کاری کا فقدان اور دوسرا پی آئی اے میں مالیاتی ڈسپلن کا نہ ہونا۔ پی آئی اے میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس کے تحت اس بات کا قبل از وقت تعین کیا جا سکے کہ اگر ایک طیارہ سی چیک (جو کم از کم دو ہفتے کا ہوتا ہے ) کے لیے جاتا ہے تو اسے بروقت واپس لایا جائے ۔ ایک طیارہ جب سی چیک کے لیے آتا ہے تو وہ مہینوں کھڑا رہتا ہے اس انتظار میں کہ اس کے پرزے خریدے جا سکیں یا اگلا طیارہ آئے تو اس کے پرزے نکال کر انھیں اس کھڑے طیارے پر لگا کر اسے فعال کیا جائے ۔ پی آئی اے کے ایک سابق سربراہ نے بتایا 'چونکہ انجینئرنگ یا فنانس کا کوئی احتساب نہیں تو اگر کوئی ایک بل پر بیٹھا ہوا ہے تو کوئی اس سے نہیں پوچھے گا کہ اتنی دیر کس بات کی لگ رہی ہے ۔ یا اگر ایک طیارہ مہینوں سے ہینگر میں کھڑا ہے تو کوئی نہیں پوچھے گا کہ کیوں کھڑا ہے ؟ تو جہاں کام دو ہفتے میں ہونا ہوتا ہے وہی کام دو مہینوں میں نہیں ہو پاتا۔