آج بلدیاتی نظام ہوتا تو ڈیٹا کی فراہمی کوئی مسئلہ نہ ہوتا(تجزیہ: سلمان غنی )
وائرس کیخلاف مہم ، لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے میں کونسلر کردار ادا کر سکتے تھے خدانخواستہ کورونا بڑھ گیا تو ہماری حکومتیں اور ادارے بھی ہمیں نہ سنبھال پائیں گے
تجزیہ: سلمان غنی کورونا وائرس اور اس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے جہاں قومی صحت’ صحت عامہ اور ہسپتالوں میں سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے حکومتوں کی مجرمانہ غفلت سانے آئی ہے ۔ اس بحرانی صورتحال میں بلدیاتی اداروں کی ضرورت و اہمیت کو ہر سطح پر محسوس کیا گیا کیونکہ حکومت کی جانب سے متاثرین کوروناکی نشاندہی ان کے ذرائع آمدن اور انہیں امداد کی فراہمی کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات ہر سطح پر عیاں ہے اور بڑا سوال یہی سامنے آ رہا ہے کہ وہ کون سا عنصر ہوگا جو مختلف علاقوں میں قیام پذیر مستحقین خصوصاً دیہاڑی دار،رکشہ یا ٹیکسی چلانے والا، ریڑھی لگانے والا اور روزمرہ بنیاد پر مزدوری کے ذریعے اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالنے والا ہو ،کیا وزیراعظم کی ٹائیگر فورس کیا متاثرین کورونا کی نشاندہی کر پائے گی اور کیا کوئی ایسا میکانزم طے ہوگا جس کے ذریعے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ امدادی پیکیج اس سپرٹ کے مطابق مستحقین تک پہنچ سکے اور اس سارے عمل کو ہر حوالے سے شفاف اور آزادانہ بنایا جا سکے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کی اہمیت و حیثیت سمجھ نہیں پائیں۔ حکومت کی جانب سے پیش کردہ امدادی اور راشن پیکیج پر اس کی سپرٹ کے مطابق عملدرآمد ہو پائے گا۔ اگر زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے تو اس مرحلہ پر حکومت کیلئے سب سے بڑی مشکل جو نظر آ رہی ہے وہ متاثرین کورونا کی نشاندہی اور ان کی امداد کیلئے میکانزم کا تعین ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ آج اگر پنجاب بھر میں بلدیاتی سسٹم فعال اور اقتدار نچلی سطح تک میسر ہوتا تو اس وبا پر قابو پانے اور وبا کے متاثرین کی نشاندہی اور انہیں امداد کی فراہمی کیلئے ایک مربوط اور کامیاب سسٹم کے ذریعے یہ سارا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا تھا۔ اس لئے کہ کونسلر سطح کا رہنما اپنے گاؤں، بستی، محلے ، علاقے اور قصبات کے ہر خاندان اور فرد سے واقفیت رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متاثرین کون ہیں اور ضرورت مند، اسے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ اس گھر میں کتنے فرد ہیں۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کے خلاف جنگ میں بھی انہی کونسلرز نے ریاستی اداروں کی ہر حوالے سے مدد کر کے اپنا اہم کردار ادا کیا تھا مگر آج کی صورتحال میں بلدیاتی سسٹم موجود نہ ہونے کو ہم سیاسی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں۔ ٹائیگر ریلیف فورس کا قیام نہ صرف بلدیاتی سسٹم کا متبادل ثابت نہیں ہوگا بلکہ یہ خود ایسی صورتحال میں ہنگامی بنیاد پر کام کرنے والے حکومتی اداروں خصوصاً ضلعی انتظامیہ میں سوشل سکیورٹی ٹیچرز اور دیگر طبقات پر بھی عدم اعتماد کا اظہار ہے اور ابھی سے ان خطرات اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بلدیاتی سسٹم اور اراکین کی جگہ ٹائیگر فورس حکومت کیلئے مطلوبہ نتائج کی فراہمی تو کیا بلکہ ان حلقوں میں ایک نئی صورتحال کا باعث بنے گی کیونکہ پنجاب بھر سے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں’ سماجی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے جاری ریلیف سرگرمیوں میں ایک نئی فورس کا متحرک ہونا انتشار اور خلفشار کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ نئی پیدا شدہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کورونا جیسی وبا سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے قائم کر کے اس کا خاتمہ بھی یقینی بنایا جائے ۔ ایک طرف تو وزیراعظم عمران خان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کورونا کے خلاف جنگ ایک لمبی جنگ ہے جس کیلئے سب کو تیاری کرنی ہے اور حکومت نے عدالت عظمیٰ میں فراہم کی جانے والی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 25 اپریل تک متاثرین کورونا کی تعداد 50ہزار تک پہنچ سکتی ہے ۔ اسطرح کی خطرناک اور خوفناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے ضروری تھا کہ حکومت اپوزیشن اور تمام طبقات مل کر اس جنگ کے خلاف سینہ سپر ہوتے اور اسے شکست دیتے اور اس کے اثرات سے نمٹنے خصوصاً ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کیلئے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے کر آگے بڑھتے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو کورونا وائرس اور اس کے نتائج سے خوفزدہ کرنے کی بجائے نئی پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ آج ہماری معیشت میں اتنی جان نہیں کہ حکومت اور ریاست کئی ہفتوں تک کورونا کے اثرات سے نمٹ سکے اور متاثرین کورونا کا بوجھ اٹھا سکے ۔ دوسری اہم بات ہسپتالوں میں ہونے والے انتظامات ہیں۔ کورونا کا متاثر نہ صرف ہسپتال کے انتظامات بلکہ قرنطینہ سنٹرز سے بھی ڈرا اور سہما ہوا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر خدانخواستہ موت ہوئی تو کوئی عزیز’ رشتہ دار اس کے جنازہ تک میں شریک نہیں ہو سکے گا لہٰذا ریاست کو اپنے طرز عمل سے عوام کویہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے عوام کے ساتھ ہے اور اسے عوام کی صحت کی فکر ہے ۔ وہ نہیں چاہتی کہ اپنے عوام کورونا وائرس کی نذر ہوں۔ دوسرا منتخب اراکین خصوصاً اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران اور سابق کونسلرز اور ناظمین کو بھی چاہئے کہ لوگوں کے اندر سے کورونا کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں اور بتائیں کہ یہ ہمارا دشمن ہے اور اس دشمن سے نمٹنے کیلئے ہمیں ہر سطح پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں۔ جب تک لوگوں کو اس وائرس کے نتائج سے آگاہ نہیں کیا جائے گا وائرس کے خلاف قومی تحریک برپا نہیں ہو سکتی۔ آج زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب اراکین اسمبلی اور منتخب نمائندوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے حلقوں میں رہنا چاہئے اور لوگوں کو باور کرانا چاہئے کہ ہم نے اپنے حلقے کے عوام کو اس جان لیوا وائرس سے بچانا ہے کیونکہ یہ وائرس کسی میں تفریق نہیں کر رہا اور جس وائرس نے امریکہ یورپ سمیت ترقی یافتہ اقوام کے تمام بندوبست ڈھیر کر دئیے اور ان کی حکومتوں کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے وہ خدانخواستہ یہاں چڑھ دوڑتا ہے تو ہماری حکومتیں اور ادارے بھی ہمیں نہ سنبھال پائیں گے اور اس وائرس کا علاج بھی کوئی بہت زیادہ مہنگا نہیں۔آج کی صورتحال میں پنجاب کے اندر بلدیاتی سسٹم بحال ہوتا تو حکومت کیلئے متاثرین کا میکانزم، انہیں خوراک اور امداد کی فراہمی،وائرس کے اثرات کے خلاف مہم اور لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے میں کونسلر اہم کردار ادا کر سکتے تھے اور بڑا مسئلہ ہی آج یہی ہے کہ اس سسٹم کا متبادل حکومت کے پاس ہے اور نہ سیاسی جماعتیں ایسی اہلیت رکھتی ہیں۔