وقتی طور پرآٹے کا بحران ٹل گیا ، اگلے سال پھر آ سکتا ہے
حکومت کو گندم درآمد کرنا ہوگی یا پرائیویٹ سیکٹر کو سبسڈی دینا پڑے گی سمگلنگ میں بڑا کردار راولپنڈی کی فلور ملز کا ، جہاں سے گندم سمگل ہوتی ہے
( تجزیہ: سلمان غنی) ملک بھر میں گندم کی فصل آنے کے بعد اس امر کا امکان تھا کہ آٹے کی قیمتوں ے حوالے سے پیدا شدہ بحران ختم ہوگا اور مناسب قیمت پر آٹا عوام کو فراہم کیا جائے گا لیکن فلور ملز پر خریداری کیلئے پابندی کا اثر یہ ہوا کہ وہ حکومت کے اس اقدام کے خلاف آٹے کی قیمتوں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو گئے اور اس حوالے سے پنجاب حکومت جس نے گندم کی ریکارڈ خریداری کر رکھی تھی وہ دباؤ میں آ گئی اور قیمتوں کو اپنی سطح پر لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اب پنجاب حکومت نے فلورملز ایسوسی ایشن اور دیگر سٹیک ہولڈرز نے مذاکرات کے بعد دو مہینے کیلئے اپنی عبوری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے آٹے کا بیس کلو کا تھیلا 850 روپے میں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جو اس سے قبل گیارہ سو تک پہنچ چکا تھا۔حکومت پنجاب کی جانب سے مذکورہ اقدام کو اس حوالے سے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس ریلیف کے براہ راست اثرات مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ عوام کو ملے گا جو آٹے کی قیمتوں میں ہونے والے اضافہ پر سخت پریشان نظر آ رہے تھے ۔بلوچستان نے سرے سے گندم نہ خریدی لیکن اب پنجاب نے گندم کی فصل پر اپنا ٹارگٹ کسی حد تک 4.2 ملین ٹن گندم کی خریداری کے ذریعہ مکمل کیا اور کسی حد تک سندھ نے بھی خریداری کی جبکہ دوسری جانب وفاقی حکومت نے گندم اور آٹے کے بحران سے بچنے کیلئے گندم امپورٹ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر گندم برآمد کرے گا لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے خریدی گئی گندم، فلور ملز کو ستمبر اکتوبر میں فراہم کی جاتی ہے جب ان کے ہاں گندم نہیں ہوتی لہٰذا اب حکومت نے آٹا بحران پر قابو پانے کیلئے ستمبر، اکتوبر کی بجائے جولائی میں ہی گندم کی فراہمی شروع کر دی ہے اور وقتی طور پر تو آٹے کا بحران ٹل جائے گا لیکن یہ بحران پھر اگلے سال کے شروع میں پھر آ سکتا ہے ، سب سے سستی گندم یوکرائن سے لی جاتی ہے اور ان کی گندم ہماری گندم سے کچھ مہنگی ہوگی لہٰذا پھر یا تو حکومت کو گندم خود درآمد کرنا ہوگی یا پرائیویٹ سیکٹر کو اس حوالے سے سبسڈی دینا پڑے گی ۔ یوکرائن سے آنے والی گندم سرخی مائل ہوتی ہے اور پھر اس کا استعمال پاکستانی گندم سے ملا کر کیا جاتا ہے ۔ آٹے اور گندم کے بحران سے بچنے کیلئے حکومت کو ہر صورت میں ملز کے کوٹے کے ریٹ کو بیرون ملک سے آنے والی گندم کے برابر رکھنا ہوگا۔ ورنہ قیمتوں میں فرق پھر ایک نئی کیفیت طاری کرنے کا باعث ہوگا۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود وافر چینی ، وافر گندم وافر دالوں کے باوجود مافیاز لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہوئے حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بنتے ہیں مگر ان کے گرد شکنجہ نہیں کس پائی اور ساری بدنامی حکومت کے حصہ میں آئی ہے اور گندم اور آٹے کے بحران میں بھی یہی ہوا لہٰذا جب تک حکومتیں ایک جامع، کڑا اور مؤثر پرائس کنٹرول میکنزم تشکیل نہیں دے پائیں۔ اس کیلئے بحران منہ کھولے کھڑے ہوں گے ۔ حکومت کو ان کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی۔ کیونکہ گندم کے بحران پر بننے والی ایک ر پورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ گندم کی سمگلنگ میں بڑا کردار راولپنڈی ڈویژن میں قائم فلور ملز کا ہے جہاں سے گندم اور آٹا سمگل ہوتا ہے اور متعدد فلور ملز جن کی مارکیٹ میں اپنی کوئی پہچان نہیں وہ اپنا کوٹہ ستمبر ، اکتوبر میں ریٹ بڑھنے پر بیچ دیتی ہیں اور حکومت اور محکمہ خوراک کو خبر نہیں ہوتی۔