پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم عہدے چھوڑ دیئے ، شوکاز نوٹس دینے پر غیر مشروط معافی مانگی جائے: بلاول بھٹو
میرا خط پھاڑا گیا میری طرف سے خدا حافظ : عباسی ، پیپلز پارٹی کے جانے پر خوش ہیں: عبدالغفور حیدری ، جس نے استعفیٰ دینا ہے دے ، ڈکٹیٹ نہ کرے ، پنجاب میں 3 سال سے مک مکا چل رہا کسی نے شوکاز دیا؟ :چیئرمین پی پی ، وضاحت طلب کی تھی پو لینڈ کی قرارداد نہیں تھی جسے پھاڑ دیا گیا :احسن اقبال، آپ اور عباسی کسی مخصوص ایجنڈے پرکام کررہے :کائرہ
کراچی(سٹاف رپورٹر،نیوز ایجنسیاں)پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پی ڈی ایم سے مطالبہ کیا ہے کہ شوکاز نوٹس جاری کرنے پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے بلا مشروط معافی مانگی جائے ۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا سی ای سی نے فیصلہ کیا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے ایٹم بم ہیں اور آخری ہتھیار کے طور پر استعمال ہوں گے ، جس کو استعفیٰ دینا ہے دے دے لیکن کسی پارٹی کو ڈکٹیٹ نہ کرے ۔سی ای سی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے شوکاز نوٹس کو مسترد کرتی ہے ۔پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے فوری طور پر احتجاجاً مستعفی ہوجائیں،سیاست عزت کیلئے کی جاتی ہے ، ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کی مزاحمت کرتے ہیں، عزت اور برابری کے ساتھ سیاست کرنا جانتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ شوکاز دینے کی کوئی مثال پاکستان کی تحریکوں میں نہیں ملتی ہے ۔تب تو کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا جب پی ڈی ایم کے ایکشن پلان پر عمل نہیں ہورہا تھا۔ پنجاب میں سینیٹ کی 5 نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئیں تو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔پنجاب میں تین سال سے مک مکا چل رہا ہے مگر کسی نے شوکاز نہیں دیا۔ خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں کسی جماعت نے جب اپنا ہی جنرل سیٹ پر امیدوار کھڑا کیا اور پی ڈی ایم کے فیصلوں کی روگردانی کی تو کسی نے نوٹس نہیں دیا۔ صرف سینیٹ ہی نہیں جی بی میں بھی دوسری بڑی اکثریتی جماعت ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی سے قائد حزب اختلاف کی سیٹ چھیننے کی کوشش کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) نے گلگت بلتستان میں اقلیت میں ہوتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا حق چھیننے کی کوشش کی تھی۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ شہید بے نظیر بھٹو کے قاتل کے وکیل کو سینیٹر بنائیں، میں نے اپنی والدہ کے قاتلوں کے وکیلوں کو ووٹ نہیں دیا اور آپ چاہتے ہیں کہ پوری قیادت اس وکیل کو اپوزیشن لیڈر بنائے ۔بلاول بھٹو نے کہا ہم اے این پی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے ان کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے نہ بیٹھنے دیا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ ہو تاکہ پارلیمان کے اندر اور باہر مل کر حکومت کی مخالفت کریں۔ ہم دوسری جماعتوں کے کہنے پر ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرتے تو ساری نشستیں پی ٹی آئی جیت جاتی۔ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے تحریک انصاف بے نقاب ہوئی ہے اور ہر جگہ اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اگر ہم سینیٹ الیکشن سے پہلے استعفے دیتے اور الیکشن میں حصہ نہ لیتے تو تحریک انصاف کو تمام سیٹوں پر فری ہینڈ مل جاتا تاہم ہمارے فیصلوں کی وجہ سے حکومت کو سینیٹ کی اسلام آباد کی سیٹ پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ضمنی الیکشن میں عوام نے بتا دیا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے وہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی عوام کے سامنے لایا گیا۔جو معلومات سامنے آئی ہیں وہ آئی ایم ایف کی دستاویزات سے سامنے آئیں۔اگر اس طرح ہی کرنا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بند کمرے میں ہی سب کچھ طے کرنا ہے ۔تو پھر پارلیمنٹ سے بجٹ منظور کرانے کی کیا ضرورت ہے ۔پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنا چاہیے ۔ سٹیٹ بینک سے متعلق آرڈیننس کو پارلیمان میں پیش کیا گیا تو مخالفت کریں گے اور جیسے ہی اس آرڈیننس کے مندرجات سامنے آئیں گے اس آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کریں گے ۔یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں آئی ایم ایف کے مفاد میں ہے کیوں کہ اس آرڈیننس کے تحت سٹیٹ بینک پاکستان کو جوابدہ نہیں ہوگا بلکہ آئی ایم ایف کو جوابدہ ہوگا ہم رمضان میں بھی آئی ایم ایف سے معاہدے کے خلاف مہم چلائیں گے ۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کشمیر پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور نہ کریں گے ۔مودی سرکار کشمیر میں جو ظلم کررہی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔کشمیر پر موجودہ حکومت کی پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے ۔آج کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر حکومت نے بولنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔بی جے پی کے منشور میں آرٹیکل 70 اے کا خاتمہ بھی شامل تھا لیکن عمران خان نے بیان دیا کہ مودی دوبارہ وزیراعظم بنا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔کشمیر کے حوالے سے یہ ہمارا کیسا نااہل وزیراعظم ہے ۔وزیراعظم قومی اسمبلی میں کشمیر کے معاملے پر کہتے ہیں کہ میں کیا کروں؟۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلے کہتے ہیں کہ ہم بھارت سے تجارت کریں گے پھر کہتے ہیں ہم بھارت سے تجارت نہیں کریں گے ۔یہ کیسی کنفیوز حکومت ہے ۔یہ پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیتے ۔ پارلیمان کونہیں بتایاجاتا کہ بھارت سے تجارت ہوگی یا نہیں۔ہمیں نہیں پتا چلتا کہ کشمیر پر ان کی کیا پالیسی ہے ۔پارلیمان سے صلاح مشورہ نہیں کیا جاتا۔یہ 5 اگست کے سیاہ دن کے موقع پر بھی اپنی انا کی وجہ سے اپوزیشن کیساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔کبھی یہ کشمیر کا سفیر بننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کبھی کلبھوشن کے وکیل بنے ہوتے ہیں۔کھٹ پتلی نالائق نااہل سلیکٹڈ وزیر اعظم نے معیشت اور کشمیر کاز کو جونقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان کسی نہیں پہنچایا۔ انہوں نے کہا صاف اور شفاف مردم شماری کرانا ضروری ہے ۔جو لوگ سندھ کا حق مارنا چاہتے ہیں وہ مردم شماری میں گڑبڑ کرکے یہ حق مار سکتے ہیں۔تمام جماعتوں کا اتفاق تھا کہ مردم شماری میں 5 فیصد دوبارہ گنتی کی جائے گی۔تاہم ایسا نہیں ہوا۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری کا معاملہ پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں لایا جائے ۔علاوہ ازیں انہوں نے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے متعلق بتایا کہ کمیٹی نے مسلح افواج کی جان بوجھ کر تضحیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ فوجداری 1898 میں ممکنہ ترمیم کو مسترد کردیا ہے ۔ سی ای سی نے سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل ایوان بالا میں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں کے معاملے پر سخت تحقیقات کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو آرڈیننس کے ذریعے ہٹانے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اسی طرح وفاق پر زور دیا کہ وہ وائرس کے خلاف موثر اقدامات کے تحت ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر جے یو آئی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سیاسی خودکشی کرلی ہے ، پیپلز پارٹی کے جانے پر خوش ہیں جبکہ ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ میرا خط پھاڑکرپھینکا گیا ہے تو میرا جواب بھی ہے ،خدا حافظ!۔ تفصیلات کے مطابق ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے ٹی وی سے گفتگو میں کہا معافی کس بات کی؟ مضحکہ خیزباتیں نہ کریں، بلاول کو ذمہ داری سے بات کرنی چاہیے ، تماشا نہ لگائیں، بلاول نے جوباتیں کی ہیں اس سے اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی کوپی ڈی ایم میں رہنا ہے تواپنا اعتماد بحال کرے ، پیپلزپارٹی ہمیں وضاحت دیتی اور اپنی مجبوری بتاتی کہ اس کوکرسی چاہیے تھی، جو جماعت اپنی زبان سے پھر جائے وہ پی ڈی ایم میں نہیں رہ سکتی۔پی ڈی ایم کا اگلا اجلاس مولانا فضل الرحمن طلب کریں گے ، اب پی ڈی ایم بیٹھ کرنئی حکمت عملی بنائے گی، پیپلزپارٹی کو وضاحت کا جواب دینا ہے تو دے ورنہ ہم اجلاس کرکے فیصلہ سنادیں گے ۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا لانگ مارچ اور استعفوں کامعاملہ تمام پی ڈی ایم جماعتوں کی مشاورت سے ہوا،پیپلزپارٹی کے ساتھ صرف سینیٹ کے لیڈر آف اپوزیشن کے انتخاب پرمعاملہ خراب ہواتھا،پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم کی طرف سے بھیجا گیا نوٹس نہیں پھاڑنا چاہیے تھا،میرے خیال سے بلاول بھٹو کا یہ بچگانہ عمل ہے ،پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے الگ کرنا ہے یانہیں اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی نے خود کو پی ڈی ایم سے الگ کرلیاہے ۔مسلم لیگ ن پی ڈی ایم کو ٹیک اوور نہیں کررہی،فیصلے متفقہ ہوتے ہیں،پیپلز پارٹی نے بے اصولی کی،پیپلز پارٹی مخلص ہے تو باپ کے سینیٹرز کو ساتھ ملاکر چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد لیکر آئے ۔ ہماری پیپلز پارٹی یا اے این پی نہیں بلکہ سلیکٹڈ سے لڑائی ہے ۔ آئیں سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لاتے ہیں تو پھر کوئی جھگڑا نہیں رہے گا۔علاوہ ازیں ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی سے وضاحت طلب کی تھی ۔ یہ کو ئی اقوام متحدہ میں پو لینڈ کی قرارداد نہیں تھی جسے پھاڑ کر پھینک دیا گیا ہم عثمان بزدار کو ہٹا کر حمزہ شہباز کو کیوں لائیں،ان کے گناہوں کا وزن ہم کیوں اٹھائیں،ہمیں تبدیلی نظر آئی تو ہم کل تبدیلی لے آئیں گے ،اپنا کندھا کسی کو استعمال نہیں کرنے دیں گے ،پیپلز پارٹی نو جماعتوں کو ڈکٹیٹ کررہی ہے ۔پی ڈی ایم کے سامنے بڑا مقصد ہے ،ہم نے پیپلز پارٹی اور اے این پی سے جواب مانگا وہ جو ٹی وی پر پیغام دے رہے ہیں،یہ جواب دے سکتے تھے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان نے ذاتی حیثیت میں خط نہیں لکھا،ایک فیصلہ ہوا جس پر جواب مانگا ۔ان کو سینیٹ میں باپ کے سینیٹرز کی ضرورت نہیں تھی تو کیوں ساتھ ملایا ۔پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ سے مل کر تبدیلی نہیں لانا چاہتے ،ہم نہیں چاہتے اپوزیشن تقسیم ہو،استعفوں کے ایٹم بم کا فیوز پیپلز پارٹی نے نکالا ہے ۔ہمارا مقابلہ عمران خان سے ہے ،اس نظام سے ہے ،پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ نہیں چلنا چاہتی تو ٹھیک ہے ۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا شاہد خاقان اور احسن اقبال کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، یہ ماحول خراب کررہے ہیں۔ ہماری کمٹمنٹ اور قربانیوں پر اب یہ ہمیں لیکچر دیں گے ،جے یو آئی سندھ میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر گروپ بنارہی ہے ،ہم نے قربانیاں دی ہیں،ہمارا اپوزیشن لیڈر باپ کے ارکان پر نہیں ہے ، ہم نے دلاور گروپ کو ساتھ ملایا،دوست ساتھ دیں گے تو ہم صادق سنجرانی کو ہٹائیں گے ،میں آج وعدہ کرتا ہوں،ضرورہٹائیں گے ،پہلے عدالتی راستہ اختیار کیا ہے ،عدالت کا فیصلہ آجائے پھر تحریک عدم اعتماد لائیں گے ۔انہوں نے کہا پی ڈی ایم کا جنازہ ن لیگ نکال رہی ہے ۔شاہد خاقان کی حیثیت کیا ہے کہ وہ اتھارٹی بن گئے ۔کیا ان کی ناک اتنی اونچی ہوگئی؟ کس حیثیت سے جواب مانگ رہے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن سنجیدہ آدمی ہیں وہ پی ڈی ایم کا فیصلہ کریں گے ۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے ٹی وی سے گفتگو میں کہا حکومت کے خلاف تحریک وہی چلاسکتے ہیں جنہوں نے کشتیاں جلا رکھی ہوں۔ پیپلز پارٹی استعفے اس وقت دیتی جب انہوں نے باپ سے ووٹ لیے تھے ، پیپلزپارٹی عمران خان کی حکومت کو سہارا دے رہی ہے ، پیپلزپارٹی جوکررہی ہے ، اس کا جواب عوام اگلے الیکشن میں دیں گے ۔ پیپلز پارٹی کے جانے کی خوشی ہوئی، اب ہم یکسوئی سے تحریک چلائیں گے ۔ پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، یوسف رضا گیلانی استعفیٰ دیں اس کے بعد اگلی بات ہوگی۔ عبد الغفور حیدری نے کہا پیپلز پارٹی کو تب منائیں گے جب وہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی سیٹ سے استعفیٰ دے گی،معذرت کرے گی تو ساتھ لے کر چلیں گے ۔ صوبہ سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات ناصرحسین شاہ نے ن لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کے بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو بھی ہماری طرف سے اللہ حافظ!ٹی وی سے گفتگو میں ناصرحسین شاہ کا کہنا تھاکہ عبدالغفورحیدری اورشاہد خاقان عباسی تو وفاقی حکومت اورپنجاب حکومت کو وقت دے رہے ہیں، پیپلزپارٹی کسی کی ذیلی تنظیم نہیں ہے ۔