بیٹی کو 50ہزار ماہانہ نہیں دے سکتا، نیوروسرجن ، درخواست مسترد
بیٹی سے محبت ساری محبتوں سے بڑی ، ڈاکٹر خرچہ دینے سے بچنا چاہتا، لاہور ہائیکورٹ ، والدہ بھی ڈاکٹر ،کافی کما لیتی ،وہ بھی بوجھ کو برداشت کرے ، والد کی عدالت میں گفتگو ، انتہائی احمقانہ دلیل ،والد بغیر ذمہ داری کما رہا ،ماں ذمہ داری اٹھا کر کما رہی ، عدالت
لاہور (محمد اشفاق سے )لاہور ہائی کورٹ نے سعودی پلٹ نیوروسرجن کی اپنی ساڑھے پانچ سالہ بیٹی کے لئے فیملی کورٹ کی طرف سے فکس کیا گیا پچاس ہزار روپے ماہانہ کا خرچہ کم کرنے کی درخواست خارج کر دی ہے ۔ جسٹس محمد شان گل نے اپنے فیصلے کے آغاز میں لکھا ہے کہ ہم ایسے شخص کی درخواست سن رہے ہیں جو اپنے آپ کو ایک بہترین اور مشہور نیوروسرجن کہتا ہے ۔ وہ اپنی ساڑھے پانچ سال کی بچی جو کہ نفسیاتی بیماری کا شکار ہے اس کو خرچہ دینے سے بچنا چاہتا ہے ۔ محترم ڈاکٹر نے شاید یہ نہیں پڑھا کہ دنیا میں ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت دنیا کی ساری محبتوں سے بڑی ہے ۔ عدالت کو یہ فیصلہ انتہائی دکھ اور درد میں لکھنا پڑ رہا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد شان گل نے ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد جواد جان عارف کی درخواست پر 14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔درخواست گزار ڈاکٹر محمد جواد جان عارف نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا کہ اس کی اپنی بیوی ڈاکٹر عائشہ سے علیحدگی ہوگئی تھی اور ایک ساڑھے 5سالہ بیٹی ہے فیملی کورٹ نے درخواست گزار کی ساڑھے 5سالہ بیٹی کا ماہانہ خرچہ پچاس ہزار روپے طے کیا ہے جو وہ ادا نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ پاکستان میں آنے کے بعد ان کی مالی حالت کمزور ہے ۔ ڈاکٹر جواد نے اپنی درخواست میں لکھا کہ وہ سعودی عرب میں نیوروسرجن تھے اور انہوں نے 2008 میں ڈاکٹر عائشہ سے شادی کی جبکہ 2016 میں ان کے ہاں ایک بیٹی کی پیدا ہوئی۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ دوہزار اٹھارہ میں وہ سعودی عرب سے سکاٹ لینڈ منتقل ہو گئے اور جب سال دوہزار بیس میں وہ پاکستان آئے تو انہیں پتا چلا کہ ان کی بیوی عدالت کے ذریعے ان سے خلع لے چکی ہیں۔عام کیسز میں بچوں کے لئے یہ ماہانہ خرچہ بیس ہزار روپے ہوتا ہے لہذا 50ہزار روپے خرچہ مقرر کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے جسٹس محمد شان گل نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ ‘فیملی عدالت کے اس فیصلے کو والد نے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تو ہم نے انہیں خود روسٹرم پر آنے کو کہا اور پوچھا کہ ایک سپیشلسٹ ہونے کی حیثیت سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بیٹی آٹیزم کا شکارہے ؟ اور کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ایسے بچے کا خرچہ عام بچے سے کتنا زیادہ ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے فوری جواب دیا وہ اس ساری بات کو سمجھتے ہیں۔فیصلے میں عدالت نے مزید لکھا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنے وکیل سے مشورہ کر کے ماہانہ خرچہ 35000 روپے کرنے کی تجویز دی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ جسٹس شان گل نے اپنے فیصلے میں لکھا ‘آٹیزم ایک بیماری نہیں بلکہ ایک زندگی بھرکا ساتھ ہے ۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے آپ دوسروں سے مختلف انسان ہیں اور آپ کی دلچسپیاں اور طرزعمل غیر معمولی ہوتے ہیں۔ بچوں کا عصبی نظام ایک مختلف طریقے سے کام کر رہا ہوتا ہے اور انہیں زندگی ویسے سمجھ نہیں آتی جیسے عام انسانوں کو آتی ہے ۔ جبکہ ایک برطانوی تحقیق کے مطابق ایسے بچے کی مخصوص ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریباََ عمر بھر میں22کروڑ روپے (ایک ملین برطانوی پائونڈ) خرچ آتا ہے ۔بچی کے والد نے یہ بھی کہا کہ بچی کی والدہ بھی ایک ڈاکٹر ہیں وہ کافی کما لیتی ہیں لہذا وہ بھی اس بوجھ کو برداشت کریں۔ عدالت نے اس کے جواب میں اپنے فیصلے میں لکھا یہ ایک انتہائی احمقانہ دلیل ہے کہ والد بغیر ذمہ داری کے کما رہا ہے اور ماں بچی کو پالنے کی ذمہ داری اٹھا کے کما رہی ہے ۔ وقت کا مطلب بھی پیسہ ہی ہے ۔ ماں کو ایسی بچی پالنے کے لئے اپنے وقت کو کیسے استعمال کرنا ہے ؟، ان کا کام کس حد تک متاثر ہو رہا ہے ، ان کو کسی مددگار کی ضرورت ہو گی، بچی کو نفسیاتی علاج کے لئے لے کر جانا اور اپنے کام کو فوری طورپر چھوڑ کر توجہ بچی پر مرکوز کرنا۔ اس سب میں خطیر رقم بھی استعمال ہوگی۔ جیسے جیسے بچی بڑی ہو گی اس کی مخصوص ضروریات بڑھیں گی۔ لہذا اس مقدمے کو ہر لحاظ سے دیکھنے کے بعد قانونی ، اخلاقی اور معاشی پہلوئوں کو سمجھتے ہیں باپ کی یہ درخوست مسترد کی جاتی ہے ۔