خاتون سے زیادتی کے 7ملزم 10سال بعد بری
لاہور(محمداشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ نے 10 سال کے بعد خاتون سے زیادتی کے 7 ملزموں کی سزا کالعدم قرار دیکر بری کردیا ۔
عدالت نے فیصلہ میں لکھا کہ ایک بے قصور کو سزا دینے سے بہترکسی مجرم کو بری کرنا ہے ۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ملزمان کی اپیلوں پر 21 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا ،فیصلہ میں کہا گیاکہ مقدمے میں مختلف پہلوؤں پر پیدا ہونے والے شک کی بنیاد پر اغوا اور ریپ کے کیس میں ملزمان کو بری کر دیا ۔ پراسیکیوشن کی جانب سے جو میڈیکل کروایا گیا اس میں جرم ثابت نہیں ہوتا یہ طے شدہ قانون ہے کہ ریپ یا گینگ ریپ کے مقدمات محض قیاس آرائیوں پر نہیں ہوتے ۔
فیصلہ میں کہاگیاکہ ٹرائل کورٹ نے 5ملزمان فدا حسین، صابر، رشید، سیف اللہ اور لطیف کو مجموعی طور پر 2 بار عمر قید اور جرمانہ کی سزا سنائی، جبکہ دو ملزمان ریاض احمد اور محمد ریاض کو ایک،ایک بارعمرقید اور جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔ ٹرائل کورٹ نے ملزمان کے خلاف جولائی 2012 میں سزا کا فیصلہ سنایا، 2008 میں یہ واقعہ پیش آیا اور ایف آئی آر 4 دن کے وقفے سے درج کی گئی۔ فیصلہ میں کہاگیاکہ چار دن کے وقفے سے درج کی گئی ایف آئی آر شک پیدا کرتی ہے جبکہ پولیس سٹیشن صرف 8 کلو میٹر دور تھا،قانون اور ماضی کے مطابق پولیس کے اتنی واضح دیر سے مقدمہ درج کرنے کی وجہ سے کیس پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔
گواہان کے مطابق اپیل کنندہ کو کرائم رپورٹ میں بعد میں شامل کیا گیا، پراسیکیوشن عدالت میں یہ ثابت نہیں کر سکی کہ درخواست گزار کو ملزمان کے نام کیسے پتہ تھے ۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزمان نے موقع پر 30 منٹ سے زائدتک مسلسل فائرنگ کی، ملزمان کو مقدمے میں نامزد کرنے کے لیے متاثرہ خاتون کے بیانات میں تضاد دیکھا گیا ہے ۔ متاثرہ خاتون نے الزام لگایا کہ اسکو 7 لوگوں نے اغوا کیے رکھا اور اسی دوران اسکا ریپ بھی کیا ،خاتون کے بیانات میں پیدا ہونے والے تضاد سے شک پیدا ہوتا ہے کہ اسے یہ سب سکھایا گیا ہے ۔
پراسیکیوشن اس کیس کے ٹرائل میں کہیں بھی خاتون کی بازیابی کے بارے میں ذکر نہیں کر رہی، اگر دونوں خواتین ساتھ اغوا ہوئیں تو (ن)بی بی کو اس واقعے کا چشم دید گواہ ہونا چاہیے ۔ فیصلہ میں کہاگیاکہ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ (ن)بی بی کتنی چھوٹی ہے ، ایک بچہ بھی گواہ بن سکتا ہے ۔ پراسیکیوشن کے مطابق 30 منٹ فائرنگ ہوتی رہی لیکن موقع واردات سے ایک بھی گولی کا خالی خول نہیں ملا۔ کیس میں 22 ملزمان کو نامزد کر کے ٹرائل کورٹ میں پیش کیا گیا جبکہ 15 کو عدالت بری کر چکی ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی کے مطابق زیادتی کے کیسوں میں صرف متاثرہ خاتون کا بیان نہیں بلکہ میڈیکل بھی کرایا جانا چاہیے ۔ عدالت نے 7ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دیکر بری کردیا ۔