ہائیکورٹ:والد کوذہنی معذورثابت کرنیکی کوشش ، بیٹے کو جرمانہ
لاہور(محمد اشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ نے سگے باپ کو ذہنی معذور قرار دینے کی درخواست مسترد کرکے بیٹے کو 2لاکھ روپے جرمانہ والد کو ادا کرنے کا حکم دیدیا ،عدالت نے قرار دیا کہ والد اگر جرمانہ کی رقم لینے سے انکار کرے تو یہ رقم شوکت خانم ہسپتال میں جمع کرائی جائے ۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے مہر اشرف سمیت دیگر کی درخواست پر بارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلہ میں لکھا کہ یہ بہت حیرا ن کن ہے ، دنیاوی فائدے کے لئے بیٹا اس حد تک گر گیا ،درخواست گزار تین ماہ کے اندر 2لاکھ جرمانہ والد محمد شریف کو ادا کرے ۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کراکر رپورٹ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے ذریعے جمع کرانے کے احکامات جاری کردئیے ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں مزید کہاکہ ملتان روڈ کے رہائشی درخواست گزار مہر اشرف کے والد محمد شریف کو عدالت نے طلب کیا جو کہ بالکل صحت مند تھا اور عدالت کے تمام سوالات کے انتہائی ذہانت سے جواب دیئے ۔ بیٹی نے عدالت کو بتایا کہ والد نے جائیداد کا کچھ حصہ اسکے نام لگایا تو بیٹے نے والد کو پاگل قرار دینے کی کوشش شروع کردی۔ مہر اشرف سمیت دیگر نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی ۔
درخواست گزار اور اسکی بہن ایک ہی گھر میں الگ الگ پورشن پررہتے ہیں۔ درخواست گزار کا 90سالہ والد محمد شریف گزشتہ 34برس سے بیٹی کے پاس رہ رہا ہے ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار مہر اشرف نے 2019میں درخواست دی کہ اسکے والد نے ذہنی توازن کھو دیا ،بہن اور اسکے شوہر نے والد کو قید کر رکھا ہے اور کسی سے ملنے بھی نہیں دیتے ۔درخواست گزار نے والد کی بازیابی کے لئے سیشن کورٹ سے رجوع کیا ، سیشن کورٹ نے والد کو طلب کیا اور بیان ریکارڈ کیا۔
بیان ریکارڈ کرنے کے بعد سیشن کورٹ نے درخواست گزار کی استدعا مسترد کردی اور والد کو ذہنی طور پر صحت مند قرار دیا ۔درخواست گزار نے سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ رجوع کیا ،درخواست گزار کے مطابق مینٹل ہیلتھ آرڈیننس کے تحت ذہنی معذور ی جانچنے کے لیے پروٹیکشن کورٹ بنائی گئی۔ ایڈیشنل سیشن جج نہ ہی کورٹ آف پروٹیکشن ،حبس بے جا کی درخواست میں مینٹل ہیلتھ کا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ جواب دہندگان نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ والد کی صحت بالکل ٹھیک ہے ۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ بیٹوں کی نظر والد کی جائیداد اور پیسے پر ہے ،کچھ ماہ قبل والد نے جائیداد کا کچھ حصہ بیٹی کے نام کیا،جس پر بیٹے ناراض ہوئے اور والد کو ذہنی معذور قرار دینے لگے ۔ فیصلہ میں کہا گیاکہ مینٹل ہیلتھ آرڈیننس صدر پاکستان کے دستخط کے بعد جاری ہوا ،اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی معاملہ ہے ،صوبوں نے کچھ ترامیم کے ساتھ مینٹل ہیلتھ آرڈیننس اپنا لیا ،ذہنی معذور لوگ معاشرے کے کمزور ترین افراد ہیں۔
آرڈیننس کا مقصد ان لوگوں کا تحفظ کرنا تھا ،کورٹ آف پروٹیکشن کا مطلب ڈسٹرکٹ کورٹ ہے ، جو پنجاب حکومت بناتی ہے اور آرڈیننس کے تحت کام کرتی ہے ، موجودہ کیس میں آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ ٹرائل کورٹ کے سامنے کارروائی سی آر پی سی کے تحت تھی۔ درخواست گزار نے واضح لکھا کہ والد ذہنی معذور ہے اور بیٹی نے زبردستی حبس بے جامیں رکھا ہے ۔
ایڈیشنل سیشن جج دونوں ایشوز پر فیصلہ کرنے کا پابند تھا جس کے لیے عدالت نے والد کا بیان ریکارڈ کیا، عدالت بیٹے کی درخواست مسترد کرتی ہے ۔