او آئی سی کی تاریخ اور مقاصد

او آئی سی کی تاریخ اور مقاصد

لاہور (دنیا مانیٹرنگ) آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا 48واں اجلاس اسلام آباد میں شروع ہوگیا ، 44رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور باقی ممالک کے اعلیٰ عہدیدار پاکستان کے مہمان بنے ہیں۔

21اگست 1969کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔اس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالم اسلام کو اس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے ۔25ستمبر 1969کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزرائے خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔ 1972میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہوگا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔

او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو 1974 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے ۔پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا سٹیٹس دیا گیا۔او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گئے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام محفوظ ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں