رواں مالی سال وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا51 فیصد حصہ قرض و سود کی ادائیگی پر خرچ

رواں  مالی  سال  وفاقی حکومت  کے  کل  اخراجات  کا51 فیصد  حصہ  قرض و  سود  کی  ادائیگی  پر  خرچ

لاہور (دنیا انویسٹی گیشن سیل)ہر گزرتے سال کے ساتھ قرض و سود کی ادائیگیوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) کے عرصے میں وفاقی حکومت کی جانب سے 6 ہزار 978 ارب 17 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اخراجات کیے گئے ، جن میں سے 3 ہزار 582 ارب 44 کروڑ 70 لاکھ روپے قرض و سود کی مدمیں ادا کیے گئے ۔

یوں رواں مالی سال وفاقی حکومت کے کل  اخراجات کا 51 فیصد حصہ قرض و سود کی ادائیگی میں صرف ہوا۔ وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق جولائی 2022ء سے مارچ 2023ء کے عرصے میں ایف بی آر کی جانب سے 5 ہزار 155 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ روپے ٹیکس اوروفاقی حکومت نے 6 ہزار 396 ارب 58 کروڑ 20 لاکھ روپے کا مجموعی ریونیو اکٹھا کیا ۔ یوں اس عرصے میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کے ریونیو کا 69 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 56 فیصد ہے ، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آخری مالی سال 2022ء کے دوران حکومت کے کل اخراجات 9 ہزار 350 ارب 8 کروڑ 90 لاکھ تھے اور اس سال حکومت نے 3 ہزار 182 ارب 43 کروڑ 20 لاکھ روپے کی ادائیگی کی جو کل اخراجات کا 34 فیصد بنتی ہے ۔ اسی طرح گزشتہ سال ایف بی آر نے 6 ہزار 142 ارب 80 کروڑ 20 لاکھ روپے کا ٹیکس اوروفاقی حکومت نے 7 ہزار 328 ارب 22 کروڑ 30 لاکھ روپے کا مجموعی ریونیو اکٹھا کیا ۔ یوں مالی سال 2022ء کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے قرض و سود کی مد میں کی جانے والی ادائیگی ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کا 52 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 43 فیصد تھا۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن)کی سابقہ حکومت کے آخری مالی سال 2018ء کے دوران حکومت نے 4 ہزار 704 ارب 30 کروڑ 10 لاکھ روپے کے اخراجات کیے اس سال حکومت نے قرض و سود کی مد میں 1 ہزار 499 ارب 92 کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے جو کل اخراجات کا 32 فیصد تھا جبکہ اسوقت وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر ٹیکس کلیکشن کا 37 فیصد اور وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 32 فیصد تھی۔ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے اپنے آخری مالی سال 2013ء کے دوران 3 ہزار 441 ارب 1 کروڑ 60 لاکھ روپے کے اخراجات کیے ، اس سال حکومت نے قرض و سود کی مد میں 990 ارب 96 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ادائیگی کی جو حکومت کے کل اخراجات کا 29 فیصد تھی۔ اسی طرح مالی سال 2013ء کے دوران ایف بی آر نے 2 ہزار 48 ارب 50 کروڑ 90 لاکھ روپے کا ٹیکس وصول کیا اوروفاقی حکومت کی مجموعی آمدن 2 ہزار 775 ارب 26 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی یوں اس وقت وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن کا 48 فیصد اور حکومتی مجموعی ریونیو کا 36 فیصد تھی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ مالی سالوں کے دوران کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی کا موازنہ اگر ایف بی آر کی ٹیکس وصولی سے کیا جائے تو مالی سال 2008ء میں قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کی مجموعی آمدن کا 28 فیصد ، مالی سال 2013ء میں 48 فیصد ، 2018ء میں 37 فیصد، 2022ء میں 52 فیصد جبکہ رواں سال 2023ء کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ)کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس آمدن کا 69 فیصد رہی جو اب تک کا ریکارڈ اضافہ ہے ۔ ان حالات میں ضروری ہے حکومت ایف بی آر کا ٹیکس نیٹ بیس بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے ٹیکس آمدن میں اضافے کیلئے نئے دروازے تلاش کرے جس کے تحت ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس آمدن کو بڑھایا جا سکے ورنہ مستقبل میں وفاقی حکومت کی جانب سے قرض و سود کی ادائیگی اور ایف بی آر ٹیکس کلیکشن کی مد میں حکومتی آمدن کی شرح برابر ہونے کا اندیشہ ہے ۔یاد رہے کہ معاشی ماہرین کے مطابق اگلے مالی سال 2024ء میں پاکستان کو قرض و سود کی ادائیگی کی مد میں 8 ہزار 400 ارب روپے کی ضرورت ہو گی، جو کہ رواں مالی سال 2023ء کے طے شدہ ہدف سے 4 ہزار 450 ارب روپے زیادہ ہوں گے ۔ مالی سال 2023ء میں قرض و سود کی مد میں کی جانے والی ادائیگی کا ہدف 3 ہزار 950 ارب روپے طے کیا گیا تھا۔ قرض و سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ایسے ہی بڑھتا گیا تو حکومت کے لیے دفاعی اخراجات، پنشن، ترقیاتی اسکیموں، سبسڈی سمیت دیگر اخراجات کیلئے رقم کا بندوبست کرنا مشکل ہو جائے گا اور بالآخر حکومت کو مزید قرضے لینا ہوں گے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں