الیکشن کمیشن موثر انتخابی نظام کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہو سکا

الیکشن کمیشن موثر انتخابی نظام کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہو سکا

(تجزیہ: سلمان غنی) الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابی عمل کے حوالے سے اہل سیاست اور سیاسی جماعتوں سے مشاورتی عمل بھی جاری ہے اور اب اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک ضابطہ اخلاق جاری کر کے اس پر سیاسی لیڈر شپ سے ان کی تجاویز و آرا طلب کی گئی ہیں ۔

 اس پر حتمی فیصلہ 4اکتوبر کے اجلاس میں ہوگا مگر موجودہ صورتحال میں سیاسی قوتیں اور خصوصاً سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول کو ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت انتخابی نظام میں جائز و ناجائز غیر قانونی اقدامات کو اپنے حق میں سمجھتی ہیں ۔ اس کیلئے وہ نہ تو انتخابی اصلاحات میں سنجیدہ ہوتی ہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے خود الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق کا کوئی عمل انہیں ہضم ہو پاتا ہے ۔ اس طرزعمل سے نہ صرف انتخابی عمل کی ساکھ نہیں بنتی بلکہ الٹا سیاست اور جمہوریت بھی مضبوط نہیں ہو پاتی الیکشن کمیشن بظاہر ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے پاس انتظامی اور قانونی اختیارات بھی بہت زیادہ ہیں مگر وہ بھی شفافیت کی بنا پر ایک موثر انتخابی نظام کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگروہ خود ہی اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین یا قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد نہیں کرا پائے گا تو شفاف انتخابات کیسے ممکن بن سکیں گے ؟ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ انتخابی امیدوار کھلے طور پر الیکشن رولز کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں اور اس پر خاموشی اور سمجھوتوں کی سیاست سے اصلاح کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور انتخابی سیاست میں بڑا مسئلہ اب ان جرائم پیشہ افراد اور مافیاز کا ہے جو دھونس دھاندلی کی بنا پر انتخابی سیاست کا حصہ بن کر مسند اقتدار تک جا پہنچتے ہیں اور پھر ان کا مجرمانہ کردار نہ صرف جمہوریت سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ خود انتخابی سسٹم کے آگے بھی سوالیہ نشانات کھڑے کر دیتا ہے ۔ آج کی ملکی صورتحال میں جب مایوسی بے چینی اور بے یقینی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے تو اس ضمن میں سیاسی ماہرین مضر ہیں کہ پاکستان کو منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف بڑھنا ہوگا ا یک مضبوط اور عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت ہی مضبوط اور موثر فیصلوں کے ذریعے ملک کو آگے لے جا سکتی ہے ۔ ہماری سیاست اور جمہوریت سمیت انتخابات کی ساکھ پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے ۔ ہمارا انتخابی نظام اپنی ساکھ قائم کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتا اس حوالہ سے ایک بڑا مسئلہ سیاسی مداخلت کا ہے ، اس کے مقابلہ کیلئے بھی علاج منصفانہ اور شفاف اصلاحات اور موثر ضابطہ اخلاق ہے ۔ یہ عمل ایک خاص جذبہ پیدا کر کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے موجودہ الیکشن کمیشن کے کردار کے حوالہ سے ایک بات اہم ہے کہ ماضی میں اس کے کردار اور طرزعمل پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی گئی کیونکہ الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لا کر اسے بعض فیصلوں سے روکنا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمشنر اور اراکین نے تمام تر دباؤ برداشت کرتے ہوئے بعض جرات مندانہ فیصلے کئے ، اس پر ثابت قدم بھی رہے لہٰذا اب جبکہ الیکشن کمیشن ملک میں آزادانہ انتخابات بارے سیاسی جماعتوں سے مشاورتی عمل شروع کئے ہوئے ہے ۔ سیاسی جماعتوں سے اعتماد حاصل کرنے کی بجائے ضروری ہوگا کہ وہ خود سیاسی جماعتوں کو اپنے ادارے کے ذریعہ یہ اطمینان اور اعتماد دے کر وہ اپنے اصل مقاصد کی ترویج کیلئے کوئی دباؤ نہیں لے گا اس حوالہ سے بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے اعتراضات واضح ہیں۔ اس حوالہ سے بڑی ذمہ داری نگران حکومتوں سے زیادہ الیکشن کمیشن پر ہے اور یہ اعتراضات اس لئے ہیں کہ بعض نگران اپنی سیاسی وابستگی رکھتے ہوئے ٹرانسفرز پوسٹنگز پر اثر انداز ہو رہے ہیں کیا ان اعتراضات میں کوئی صداقت ہے ؟ یہ الیکشن کمیشن کو دیکھنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں