الیکشن کمیشن کا انتخابات کا اعلان سنجیدہ پیش رفت قرار

الیکشن کمیشن کا انتخابات کا اعلان سنجیدہ پیش رفت قرار

(تجزیہ:سلمان غنی) الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں کرائے جانے کے اعلان کو پیدا شدہ کنفیوژن کے خاتمہ اور انتخابی عمل بارے ایک سنجیدہ پیش رفت قراردیا جا سکتا ہے ۔

اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تحت انتخابی مراحل طے کر رہا ہے اور اعلان کے بعد  چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریوں کو بھجوائے جانے والے مراسلہ میں بھی انہیں انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں الیکشن کمیشن کے دفاتر سے ممکنہ تعاون کی ہدایت بھی کر دی گئی ہے اور اس کے پیش نظر اب یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ انتخابی عمل بارے افواہوں کا خاتمہ ممکن ہوگا ۔جہاں تک انتخابی عمل کے حوالے سے جاری افواہوں کا تعلق ہے تو بعض جماعتوں کی جانب سے اس حوالے سے واضح تحفظات تھے اور ایک عرصہ سے یہ افواہیں جاری تھیں کہ ملک میں جاری نگران حکومتوں کا عمل صرف تین ماہ کیلئے نہیں بلکہ یہ سلسلہ آگے بھی چل سکتا ہے کچھ عناصر انتخابی التوا کے عمل کو ایک سال تک کچھ دو سال تک کی بات کر رہے تھے ۔دوسری جانب الیکشن کمیشن مسلسل اس موقف کا اظہار کرتا نظر آ رہا تھا کہ ملک میں انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لئے اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کریں گے اور آئینی عمل کو آگے بڑھائیں گے ۔ ماضی کی حکومت کی ا تحادی پیپلز پارٹی نے بھی نوے روز کے انتخابات کو ہدف بناتے ہوئے اسے بڑا ایشو بنانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں اس بنا پر کامیاب نہیں ہوئی کہ ان کے وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی وزرا کی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں موجودگی اور فیصلوں پر اعتماد ریکارڈ کا حصہ تھا اور نوے روز کا اس کا اصولی موقف بھی اس لئے کارگر نہ ہو سکا کہ پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد وہ نوے روز کے انتخابات کی حامی نہیں تھی بہرحال بعض جماعتوں کی جانب سے نوے روز کے انتخابی عمل بارے بڑھتے دباؤ کے باعث الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کا اعلان کر کے ایک جانب جہاں سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے وہاں نومبر میں آئی ایم ایف کیلئے دوسری قسط کی فراہمی کے عمل میں بھی اس اعلان کے بعد آسانی ہوگی ویسے بھی دیکھنے میں آ رہا تھا کہ امریکہ سمیت بعض سفارتکار اور ادارے بھی پاکستان میں آزادانہ انتخابات کے انعقاد بارے دلچسپی ظاہر کرتے اور جمہوری عمل سے اپنی کمٹمنٹ کا اظہار کرتے نظر آ رہے تھے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے اعلان سے جہاں اندرون ملک اس حوالہ سے اطمینان ہوگا وہاں بیرونی محاذ پر بھی یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان انتخابات کے حوالہ سے کتنا سنجیدہ ہے ۔9مئی کے واقعات پر ریاست اور ریاستی ادارے کمپرومائز کرنے پر تیار نظر نہیں آ رہے بلکہ 9مئی کے واقعات میں ملوث پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سمیت ملوث ملزموں کے کیس میں بغاوت کی دفعات اس کا ثبوت ہیں لیکن جہاں تک پی ٹی آئی کے انتخابی عمل میں شرکت کا سوال ہے تو فی الحال تو جیلوں سے باہر ان کی قیادت، ذمہ داران اور خصوصاً سابق اراکین اسمبلی خوف و ہراس سے دوچار ہیں یا تو وہ اپنے گھروں اور شہروں میں موجود نہیں اور اگر موجود ہیں تو کھلے طور پر سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں نہیں کر پا رہے جو الیکشن کمیشن کیلئے بڑا چیلنج ہوگا ۔البتہ دیکھنا اب یہ ہوگا کہ جنوری میں انتخابات کے اعلان کا یہ عمل آخری ہفتہ سے حتمی تاریخ تک کب پہنچے گا کیونکہ واضح تاریخ کا اعلان مکمل اطمینان کیلئے ناگزیر ہے ویسے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ حتمی تاریخ کے اعلان میں ابھی بہت سے تکنیکی معاملات ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن نے حتمی تاریخ کی بجائے آخری ہفتے کا اعلان کر کے سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیاں ختم ہوں ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مرحلہ پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتہ میں انتخابات کا اعلان اندرون و بیرون ملک بڑے پیغام کے ساتھ دیگر ریاستی اداروں کے اطمینان کا باعث بھی ہے لہٰذا اب گیند پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی کورٹ میں آ گیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے اعلان کو کتنا سنجیدگی سے لیتی ہیں بعض مقتدر اداروں کا کردار بھی شامل ہوتا ہے لہٰذا اس اعلان کو حتمی نہ سمجھا جائے حتمی اعلان کا انحصار بعض عوامل سے مشروط ہے لہٰذا ماہرین بھی فی الحال انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے یکسو نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں