نئی سیاسی جماعت کیلئے کوششیں بے فائدہ مشق، ٹائمنگ درست نہیں

 نئی سیاسی جماعت کیلئے کوششیں بے فائدہ مشق، ٹائمنگ درست نہیں

(تجزیہ:سلمان غنی) مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے ضمن میں چہ مگوئیاں جاری ہیں اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان رہنماؤں کی سوچ اور اپروچ کے حوالے سے اچھی رائے رکھنے والے بھی ان کی جانب سے مجوزہ جماعت کیلئے کوششوں اور کاوشوں کو ایک بے فائدہ مشق قرار دیتے نظر آ رہے ہیں۔

 جن کے مطابق انتخابات سے قبل کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کیلئے ٹائمنگ درست نہیں ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، مصطفی کھوکھر سمیت دیگر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے خواہشمند ہیں کیا نئی مجوزہ جماعت کو عوامی سطح پر پذیرائی مل پائے گی جہاں تک مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے شا ہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کا تعلق ہے تو بلاشبہ شاہد خاقان عباسی کا ن لیگ سے تعلق کئی دہائیوں سے ہے اور نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے بعد ان کی جماعت نے انہیں وزیراعظم کے منصب پر بٹھایاجہاں تک مفتاح اسماعیل کا تعلق ہے تو ان کے حوالہ سے عام رائے یہ ہے کہ ان کے وزارت خزانہ کے منصب پر آنے کے بعد ان کی کارکردگی کچھ پارٹی کے ذمہ داران کو ہضم نہ ہو پائی اور خصوصاً وزارت خزانہ اسحق ڈار کے آنے پر ان کے جذبات مجروح ہوئے اور انہوں نے کھلم کھلا ان سے اختلافات کا اظہار شروع کر دیا ۔

کیا یہ سب رہنما کسی سیاسی جماعت کے قیام پر مجبور ہوں گے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ رہنما گو مگوں کی پالیسی کا شکار ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ کہ پاکستان میں حکومتوں میں آنا آسان مگر سیاسی جماعتیں بنانا اور چلانا بہت مشکل قرار دیا جاتا ہے اور اگر کچھ اور فورسز کی اشیر باد پر سیاسی جماعتیں وجود میں آ بھی جائیں تو ان کا مستقبل نہیں ہوتا بلکہ یہ وقتی ضرورت کے تحت وجود میں آتی ہیں اور جن کی وجہ سے آتی ہیں ان کے چلے جانے کے بعد ان کی اہمیت قائم نہیں رہتی جس کی ایک بڑی مثال ق لیگ کی ہے ۔ شاہد خاقان عباسی اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ نئی جماعت کی ضرورت کی بات تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن وہ اس کیلئے خود یکسو نظر نہیں آتے اور ابھی تو جماعت کے کچھ حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی کی صورت میں ان کی جماعت میں واپسی کی ایک اور کوشش ضرور ہوگی کیونکہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اپنے تحفظات کے باوجود نواز شریف کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنے والے ہیں اور اس حوالہ سے کسی سنجیدہ کوشش کے نتیجہ میں انہیں جماعت میں پھر سے کردار مل سکتا ہے کہا جا سکتا ہے کہ شاہد خاقان، مفتاح اسماعیل اپنے تحفظات پر تو کاربند ہیں مگر وہ کسی نئی سیاسی جماعت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کیلئے تیار نہیں اور اگر جماعتی لیڈر شپ ان کے ان تحفظات کو دور نہیں کر پاتی تو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی بجائے خاموشی اختیار کریں گے اور میڈیا کے محاذ کو ہی اپنی سرگرمیوں کا ذریعہ بنائیں گے ویسے تو بعض حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی کے تحفظات بھی چودھری نثار علی خان سے ملتے جلتے ہیں انہیں اپنی عزت اور انا عزیز رہی ہے لہٰذا اگر شاہد خاقان عباسی کا اپنی جماعت سے یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر وہ ہو سکتا ہے کہ چودھری نثار علی خان کی طرح کسی جماعت میں تو شامل نہ ہوں اپنی آزادانہ حیثیت ہی قائم رکھ پائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں