پی ٹی آئی مذاکرات سے انکاری اور احتجاجی طرزعمل پر بضد

پی ٹی آئی مذاکرات سے انکاری اور احتجاجی طرزعمل پر بضد

(تجزیہ: سلمان غنی) تحریک انصاف مسلسل حکومت اور سیاسی قوتوں سے مذاکرات سے انکاری اور احتجاج اور احتجاجی طرزعمل پر مضر نظر آ رہی ہے ۔

 اس حوالہ سے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کو ایسی ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں لہٰذا اس حکومت کے خلاف عوام کو باہر لانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔آج جمعہ کے روز اس ضمن میں احتجاج کی کال ہے اور فیصل آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بڑے احتجاجی جلسہ کا پروگرام بنایا گیا ہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی کال کارگر ہو پائے گی کیا اس احتجاجی عمل کے نتیجہ میں حکومت دباؤ میں آئے گی جہاں تک پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت اور اس میں شامل اتحادیوں سے مذاکرات سے گریزاں پالیسی ہے تو یہ پالیسی کوئی نئی نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ سخت زبان استعمال کرتے ہوئے ان کی سیاسی ساکھ پر اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے ۔ یہ سلسلہ انہوں نے بطور وزیراعظم بھی طاری رکھا ، یہی وجہ ہے کہ ان کے ساڑھے تین سالہ حکومتی دور کو سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کے حوالہ سے ہی پہنچانا جاتا ہے اب پی ٹی آئی کی جانب سے کسی بڑے احتجاجی عمل کا امکان نہیں اور احتجاج کے حوالہ سے سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ احتجاج ایشوز کیساتھ منسلک ہوتا ہے ، کسی بھی بڑے ایشو پر سیاسی جماعتیں مختلف اوقات میں احتجاج کرتی ہیں ۔

بعد ازاں ایسا وقت آتا ہے کہ حکومتیں ایکسپوز ہو جاتی ہیں اور عوام مسائل کی آگ میں جلتے نظر آتے ہیں ۔ پھر اپوزیشن احتجاجی تحریک چلاتی نظر آتی ہے لیکن پی ٹی آئی کا سلسلہ ہی الگ ہے ۔ یہ حکومت میں ہو یا یہ ہو احتجاج کی کیفیت خود پر طاری رکھتی ہے ۔ ہر حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے احتجاجی عمل کا سہارا لیتی ہے ۔ یہ سلسلہ خود ان کے کارکنوں کیلئے بڑی آزمائش بن چکا ہے اور اب ان کے سیاسی قائدین یہ کہتے بھی سنائی دے رہے ہیں کہ آخر کب تک ہماری لیڈر شپ ہمارا امتحان لے گی ۔ ہمیں اس طرزعمل پر نظرثانی کرنا چاہیے جس کے نتیجہ میں پہلے حکومت کی اور پھر اپوزیشن میں آنے کے باوجود بھی ہم پر آزمائش جاری ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ احتجاج اور جارحانہ طرزعمل ایک وقت تک کارگر ہوتا ہے ، اس بنا پر اپنے کارکنوں میں یکسوئی اور اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھا جاتا ہے لیکن سیاسی مسائل اور مشکلات کا حل بالآخر ڈائیلاگ سے نکلتا ہے جس کی بڑی مثال خود مسلم لیگ ن ہے جس نے ماضی میں کڑا وقت کاٹا ان کی لیڈر شپ جیل بھی گئی اور اسے جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی ۔ اس نے اپنی حکمت عملی کے تحت ڈائیلاگ کے ذریعہ اپنے لئے راستہ بنایا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں