ہماری مدر آف انڈسٹریز‘ جس کو پاکستان کی معیشت کا جھومر کہا جاتا تھا‘ ہمارا قیمتی ترین قومی اثاثہ‘ پاکستان سٹیل ملز‘ جس سے قومی قرض اُتر سکتا تھا‘ معاشی بحالی ہو سکتی تھی‘ اس منافع بخش ادارے کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ پاکستان سٹیل ملز کے زوال کی بنیادی وجوہات انتظامیہ اور یونین لیڈروں کی وسیع پیمانے پر بدعنوانیاں‘ سیاسی بھرتیاں‘ ناجائز ترقیاں اور بڑے بڑے عہدوں پر میرٹ کے برخلاف تقرریاں شامل ہیں۔ آج اس کا بند تالا بھی 30ارب روپے سالانہ میں پڑ رہا ہے۔ ماضی میں اس کے افسران کی ہیرا پھیریوں کے راز بھی فاش ہو چکے ہیں۔ یہاں سے گزشتہ دو سال میں 47لاکھ کا کاپر اور ایک کروڑ 28لاکھ کا سکریپ چوری ہو چکا ہے۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ کسی نے اُن افرادسے باز پرس ہی نہیں کی جنہوں نے سٹیل ملز کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا تھا۔ اب پاکستان سٹیل ملز کی قیمتی اراضی کوڑیوں کے مول بیچی جا رہی ہے۔ اس کھربوں روپے مالیت کی اراضی کیلئے کیا کھیل کھیلا گیا؟
پاکستان سٹیل ملز کا کل قرضہ 229ارب ہے۔ سٹیل ملز سوئی سدرن گیس کمپنی کے 22ارب روپے کی قرض دار ہے جبکہ اس نے نیشنل بینک سے 36.42ارب روپے ادھار لیے تھے جو کبھی واپس نہیں ہوئے۔ 20 مارچ 2023ء کو سوئی سدرن گیس کمپنی نے پاکستان سٹیل ملز کی زمین کی بولی لگا دی کہ اس کے 1400ایکڑ ہمیں صرف 43ارب میں دے دیے جائیں۔ پاکستان سٹیل ملز کی کل زمین 19ہزار 13ایکڑ ہے۔ سٹیل ٹاؤن کے ساڑھے چار ہزار گھر اور ایک گھر کی قیمت ہی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ گلشن حدید فیز I‘ II‘ IIIاور IV‘ عریبین کنٹری کلب اور ڈاؤن سٹریم پروجیکٹس اینڈ انڈسٹریز بھی سٹیل ملز کی زمین پر بنائی گئی ہیں۔ سٹیل ملز کی زمین پر موجود گرڈ سٹیشنز‘ لیبر کالونی اور کے الیکٹرک سے بھی کرایہ وصول کیا جاتا ہے جس کا کبھی کسی فورم پر ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ یہ عوام کے پیسے سے بنائی جانے و الی کمپنی ہے‘ کوئی پرائیویٹ کمپنی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سٹیل ملز کی زیر ملکیت زمین پر 10ہزار 61ایکڑ پر لوہے کی کانیں ‘ جھمپیر میں 844ایکڑ پر لائم سٹون کی کانیں بھی موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کانوں کو کیوں خفیہ رکھا گیا؟ یہ تمام پراپرٹیز حکومت پاکستان کے پبلک فنڈز سے بنیں جو تقریباً 17.56ارب روپے بنتا ہے۔
2007ء میں پاکستان سٹیل ملز نے 2.37ارب روپے کا منافع کمایا تھا۔ بندش سے قبل سٹیل ملز کے پاس اندازے کے مطابق 10ارب کا خام مال‘ 12ارب تک کیش اور آٹھ ارب روپے کی تیار مصنوعات موجود تھیں۔ ان تما م اشیا اور رقم کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ کرپشن کی تحقیقات پر ایف آئی اے کے دو افسران کو اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے تبدیل کروایا دیا تھا۔ منافع بخش سٹیل ملز کا سیاہ دور عثمان فاروقی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے شروع ہوا۔ ان کے خلاف سٹیل ملز میں کرپشن کے مقدمات ثابت ہوئے جس کے بعد انہوں نے قومی احتساب بیورو سے پلی بارگین کرتے ہوئے 26کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروائے تھے۔ مشرف دور میں سٹیل ملز کی باگ ڈور پہلے لیفٹیننٹ جنرل( ر) عبدالقیوم اور میجر جنرل ( ر) محمد جاوید کے ہاتھ میں رہی۔ 2006ء میں 250ارب روپے کی سٹیل مل عارف حبیب گروپ اور سعودی سرمایہ کاروں کوتقریباً 21 ارب روپے میں فروخت کردی گئی۔ 19ہزار 13ایکڑ اراضی پر مشتمل سٹیل ملز‘ جس کی مارکیٹ ویلیو اُس وقت 250ارب روپے تھی اور جہاں 12ارب روپے کی نئی تیار شدہ مصنوعات Inventoryمیں موجود تھیں‘ جو اس وقت چار ارب روپے سالانہ منافع کما رہی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سٹیل ملز کی اس نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا مگر اس ادارے کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 2008ء میں اس کے اکاؤنٹ میں 25 ارب روپے موجود تھے لیکن اس کو مسلسل خسارے میں دکھا یا جا رہا تھا۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی 2009ء کی رپورٹ کے مطابق 2009ء میں سٹیل ملز منافع میں تھی جبکہ اسے دھوکا دہی سے خسارے میں دکھانے کی کوشش کی گئی۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر نوٹس لیا۔ پہلے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا اور بعد ازاں تمام متعلقہ کیسز نیب کو ٹرانسفر کر دیے۔
2011ء میں پاکستان سٹیل ملز کے کل اثاثوں کا تخمینہ 1200 ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ ادارے کے پروویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کی مد میں 38ارب روپے بھی موجود تھے مگر وہ اچانک غائب ہو گئے۔ پاکستان سٹیل ملز کے خلاف تمام سازشیں اس وقت اپنے منطقی انجام کو پہنچیں جب 10جون 2015ء کو گیس بل کی عدم ادائیگی کو جواز بنا کر اسے بند کر دیا گیا اور 13ہزار مستقل ملازمین کی ملازمتیں داؤ پر لگا دی گئیں۔2020ء میں کورونا کا بہانہ بنا کر نو ہزار سے زائد ملازمین کو جبری برطرف کرنے اور ادارے کی ایک بار پھر نجکاری کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے نجکاری کو ایک بار پھر کالعدم قرار دے دیا۔ 2015ء میں بند ہونے کے باوجود 2022ء میں پاکستان سٹیل ملز سے تقریباً سات ارب 45کروڑ روپے کا ٹیکس منافع حاصل کیا گیا۔ 2015ء میں اس کے بند ہونے سے اس کی مصنوعات کی درآمدات کی مد میں 18ارب ڈالر کے زرِ مبادلہ کا نقصان ہوا۔ اس وقت اس کے کل اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ 838ارب 66کرورڑ روپے ہے جس میں 17ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل 751ارب کی پراپرٹی‘ گھر‘ ہسپتال‘ تعلیمی مراکز‘ پلانٹ مشینری اور سرمایہ کے لیے 71ارب روپے شامل ہیں۔
پاکستان سٹیل ملز کو بحال کرنے کے لیے تحریک انصاف نے ملازمین سے بھر پور وعدے کیے مگر ان کے دور میں ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کردیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز کی پیداوار 11لاکھ ٹن فولاد سالانہ سے شروع ہوئی اور محض پانچ برسوں میں 33 لاکھ ٹن سالانہ تک جا پہنچی تھی۔ 1990ء اور 1991ء میں اپنے عروج کے دور میں پاکستان سٹیل ملز میں 24 ہزار ملازمین تھے۔ اس منافع بخش ادارے نے 1981ء سے 2007ء تک ملکی بینکوں سے لیا گیا 25ارب روپے کا قرضہ واپس کرنے کے علاوہ 114ارب روپے ٹیکسوں کی صورت میں بھی وفاقی حکومت کو ادا کیے۔ سٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ‘ آکسیجن پلانٹ‘ کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری‘ کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی‘ اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئر بیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کیے بغیر بھی اس کو بحال کیا جا سکتا ہے؟ سٹیل ملز کی بحالی کیلئے 58کروڑ 40لاکھ ڈالر درکار ہیں۔ ضروری ہے کہ سٹیل ملز میں 15ارب ڈالر کی بدعنوانی کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ سٹیل ملز سے ملحق پورٹ قاسم پر زمین کی قیمت 10کروڑ روپے فی ایکٹر سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی فروخت سے بھی سٹیل ملز کی بحالی کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تنظیم نو کے ساتھ پیشہ ورانہ انتظامیہ‘ تربیت یافتہ افرادی قوت و بزنس کمیونٹی کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ اس قومی اثاثے کو مسلسل خسارے میں دکھانے والے بیوروکریٹس اور ان کے پیچھے موجود کرپٹ عناصر کا پتہ لگا کر انہیں عوام کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ سٹیل ملز کے اثاثوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے تاکہ حقیقت کا علم ہو سکے۔