پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات احترام اور اعتماد کے رشتے پر قائم ہیں‘ جو صدیوں پر مبنی مشترکہ تاریخ‘ ثقافت اور مذہب سے جڑا ہوا ہے‘ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ دوطرفہ برادرانہ تعلقات شراکت داری میں تبدیل ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی دیرینہ خواہش تھی کہ سعودی عرب پاکستان میں موجود سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائے۔ اس حوالے سے وفود کی سطح پر کئی اہم ادوار ہوئے لیکن عملی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ پی ڈی ایم حکومت میں وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں سعودی عرب سے اہم شعبوں میں شراکت داری کی کوششیں کی گئیں لیکن چونکہ اُس حکومت کے پاس وقت کم تھا اس لیے نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی۔ عام انتخابات کے بعد شہباز شریف دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے دوست ممالک سے قرض کے حصول کے بجائے سرمایہ کاری اور شراکت داری کی پالیسی اپنائی۔ اپریل کے اوائل میں وزیراعظم کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات ایسے ماحول میں ہوئی کہ حکومتی ٹیم کا ہوم ورک مکمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اگلے چند روز میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفدپاکستان بھیج دیا۔ سعودی وفد کے اس دورے میں پاکستان نے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تجویز دی۔ اپریل کے آخر میں ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم کی سپیشل میٹنگ میں شرکت کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی حکام سے ملاقاتوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں پر پیش رفت کے حوالے سے پوچھا تو پاکستان اور سعودی عرب کے کوارڈینیٹر‘ سعودی ایوانِ شاہی کے مشیر محمد بن مزید التویجری‘ جو سعودی وژن 2030ء کے نگران بھی ہیں‘ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم سے پاکستان کے ساتھ شراکت کے منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کر دیا۔ سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر جب ہمارا وزیراعظم صاحب سرمایہ کاری کے منصوبوں کے حوالے سے کافی پُرامید تھے۔ سعودی تاجروں اور سرمایہ کاروںکا حالیہ دورۂ پاکستان دراصل اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
پاک سعودی شراکت داری دونوں ممالک کیلئے مفید ہے۔ فوڈ سکیورٹی سعودی وژن 2030ء کا اہم جزو ہے جس کے تحت سعودی عرب مقامی اور بیرونی سطح پر زراعت کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہا ہے۔ سعودی گرین انیشی ایٹو‘ دا مڈل ایسٹ گرین انیشی ایٹو اور سرکلر کاربن اکانومی انیشی ایٹو انہی اقدامات کا حصہ ہے۔ سعودی عرب نے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ عرصہ پہلے یوکرین کی زمینوں میں بھی دلچسپی ظاہر کی تھی مگر روس یوکرین جنگ کے باعث یہ ممکن نہ ہو پایا۔ پاکستان کے پاس ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع ہے کیونکہ سعودی عرب دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے‘ لیکن وہاں خوراک کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کا زیادہ تر رقبہ خشک اور بنجرہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اپنی خوراک کی ضروریات کا تقریباً 80 فیصد درآمد کرتا ہے جس پر سالانہ اربوں ڈالر لاگت آتی ہے۔ سعودی عرب گندم درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے کیونکہ وہاں اس کی کاشت کیلئے موزوں زمین نہیں۔ امریکہ‘ فرانس‘ کینیڈا اور آسٹریلیا سعودی عرب کو گندم سپلائی کرتے ہیں۔ چاول سعودی عرب میں ایک اہم غذا ہے‘ جو زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیا سے درآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں پھل اور سبزیوں کی مقامی پیداوار بھی بہت کم ہے اس لیے یورپی ممالک مثلاً سپین‘ نیدر لینڈز اور اٹلی سے پھل اور سبزیاں درآمد کی جاتی ہیں۔ سعودی عرب میں گوشت کی کھپت بھی کافی زیادہ ہے جو زیادہ تر برازیل‘ آسٹریلیا اور یورپی ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ دودھ‘ پنیر اور مکھن جیسی ڈیری مصنوعات بھی سعودی عرب میں درآمد کی جاتی ہیں حالانکہ حکومت مقامی پیداوار کو بڑھانے کی کوششوں میں ہے۔ ڈیری مصنوعات زیادہ تر نیوزی لینڈ اور یورپی یونین کے ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ اس تفصیل کے بعد یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب جیسا خوشحال ملک مسلم ممالک سے غذائی ضروریات پوری کرنے کے بجائے مغربی ممالک کا انتخاب کیوں کرتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ جدید دنیا میں تیز رفتار زندگی اور مصروفیت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خوراک کے رجحانات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب لوگ تیار شدہ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں جن کی تیاری میں کم وقت لگے اور وہ غذائیت سے بھرپور ہوں۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ویلیو ایڈیشن کا عمل خوراک کی صنعت میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ویلیو ایڈیشن ایک ایسا عمل ہے جس میں خام خوراک کی اصل حالت میں تبدیلی کر کے اس کی افادیت اور مارکیٹ ویلیو میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی اس کی شکل‘ ذائقہ‘ شیلف لائف یا استعمال میں آسانی جیسے عوامل سے وابستہ ہوتی ہے۔ دودھ سے مختلف قسم کی ڈیری مصنوعات جیسے دہی‘ پنیر‘ مکھن‘ آئس کریم وغیرہ تیار کرنا ویلیو ایڈیشن کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح اناج سے آٹا‘ میدہ‘ بسکٹ وغیرہ تیار کرنا بھی ویلیو ایڈیشن ہے۔ غذائی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن کئی مراحل پر مشتمل ہوتی ہے جیسے صفائی‘ پراسیسنگ‘ پیکنگ اور برانڈنگ۔ اس عمل سے نہ صرف خوراک کی اشیا کی افادیت اور ذائقہ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ زیادہ عرصے تک محفوظ بھی رہتی ہیں۔ دنیا بھر میں پراسس فوڈ کی مانگ میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ تیز رفتار زندگی‘ صحت بخش اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی تلاش اور عالمی منڈی میں بھی ویلیو ایڈیشن کی پذیرائی۔ کیونکہ ایسی مصنوعات زیادہ عرصے تک محفوظ رہتی ہیں اور ان کی نقل و حمل آسان ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک امریکہ‘ یورپی یونین‘ جاپان سمیت کئی ممالک ویلیو ایڈیشن کی دوڑ میں پیش پیش ہیں۔ یہ ممالک جدید ٹیکنالوجی‘ مضبوط انفراسٹرکچر اور تحقیق و ترقی کے ذریعے خوراک میں نئی اور جدت والی اشیا تیار کر رہے ہیں۔ ریڈی ٹو ایٹ کھانے‘ فروزن فوڈز‘ ڈیری مصنوعات کی مختلف اقسام‘ صحت بخش اور غذائی اجزاء سے بھرپور خوراک کی چیزیں ان ممالک کی ویلیو ایڈیشن کی کامیابی کی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت بھی ویلیو ایڈیشن کے ذریعے عالمی منڈیوں تک اپنی مصنوعات پہنچا رہا ہے۔
پاکستان کہنے کو ایک زرعی ملک ہے ‘جہاں آب و ہوا اور زرخیز زمین کی وجہ سے کئی قسم کی فصلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ اناج‘ پھل‘ سبزیاں‘ گنا اور کپاس پاکستان کی اہم زرعی پیداوار ہیں‘ مگرپاکستان عالمی منڈی میں اپنی زرعی اجناس کی برآمد کی پوری صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ اس کا ایک اہم سبب ویلیو ایڈیشن کا فقدان ہے۔ ہماری زرخیز زمینوں اور کسانوں کی محنت سے پیداوار تو خوب ہوتی ہے مگر ان اجناس کو محفوظ بنا کر فروخت کیسے کرنا ہے‘ ہمارے لوگ اس سے واقف نہیں ‘ حالانکہ پاکستان کا شمار دنیا میں اناج کی پیداوار میں سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف بھارت جیسا ملک باسمتی چاول کو ویلیو ایڈڈ بنا کر زیادہ منافع کماتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں کثرت سے پائے جانے والے پھل آم اور کنو وغیرہ‘ زیادہ تر تازہ حالت میں برآمد کیے جاتے ہیں جن کی شیلف لائف کم ہوتی ہے اور نقل و حمل کے دوران ضائع ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ان پھلوں سے جوس‘ کنسنٹریٹس اور جام وغیرہ تیار کیے جائیں تو یہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ زمانے کے جدید تقاضوں سے آگاہی اور انہیں فروغ دیے بغیر ترقی کی منازل کا حصول آسان نہیں۔ سعودی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی حکومتی کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن اہم یہ ہے کہ ہم سعودی سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول فراہم کرنے اور ان کے بلند معیار کا خیال رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟