"IYC" (space) message & send to 7575

امریکی طلبہ کو تحریک چلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

یونیورسٹی آف کولمبیا نیو یارک (امریکہ) سے فلسطینیوں کے حق میں شروع ہونے والے طلبہ کے مظاہرے امریکہ بھر میں پھیلنے کے بعد اب دوسرے ممالک میں بھی اپنا اثر دکھا رہے ہیں اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں بھی غزہ کے نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی فوج کی گولہ باری اور میزائل باری کے خلاف تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اب تک طاقت کے استعمال اور گرفتاریوں کے ذریعے طلبہ کی اس احتجاجی لہر کو دبانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہ تحریک جس تیزی سے پھیل رہی ہے اور جس سرعت کے ساتھ شدت اختیار کر رہی ہے اس سے توجہ امریکہ ہی میں چھ دہائیاں قبل چلنے والی طلبہ کی اس احتجاجی تحریک کی طرف چلی جاتی ہے جس نے امریکی انتظامیہ کو ویت نام میں جنگ بند کرنے اور اپنے فوجیوں کے انخلا پر مجبور کر دیا تھا۔
ویت نام کی جنگ کا ذکر بعد میں پہلے یہ جان لیں کہ بظاہر طلبہ تحریکیں بین الاقوامی سطح پر گزشتہ کچھ عرصے سے نمایاں نظر آتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحریکیں طویل عرصے سے مختلف ملکوں اور مختلف خطوں میں سرگرم سیاسی اور سماجی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انیسویں صدی عیسوی میں یورپ سے اٹھنے والی قوم پرست تحریکوں کو طلبہ کی قوی حمایت حاصل رہی۔ اس کے علاوہ یورپ کی انقلابی تحریکوں‘ جن میں 1848ء کا جرمن انقلاب اور روسی انقلابی تحریکیں بھی شامل ہیں‘ میں بھی طلبہ کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ طلبہ تحریکیں ترقی پذیر خطے میں بھی جاری رہی ہیں۔ ایشیا کے طلبہ کا سیاسی معاملات میں عمل دخل طویل تاریخ کا حامل ہے۔ بھارت‘ چین‘ برما‘ انڈونیشیا‘ پاکستان اور دیگر کئی ایشیائی ممالک میں انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران سر اٹھانے والی تحریکوں میں یونیورسٹی کے طلبہ اور مغرب سے تعلق رکھنے والے یا مغرب کے تعلیم یافتہ دانشور بے حد فعال رہے۔ اس عرصے میں آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں آزادی کے بعد بھی مختلف حوالوں سے تحریکیں چلتی رہیں اور ان میں طلبہ اور نوجوان متحرک رہے۔ کچھ ممالک میں طلبہ تحریکیں براہ راست یا بالواسطہ حکومتوں کو برخاست کرنے یا سیاسی بحران پیدا کرنے میں بھی کامیاب ہوتی رہی ہیں جیسے ترکی‘ جنوبی کوریا‘ جنوبی ویت نام‘ انڈونیشیا‘ پاکستان اور جاپان۔ 1969ء میں ایوب خان کے خلاف سر ابھارنے والی تحریک کا آغاز بھی طلبہ نے ہی کیا تھا۔یہ مختصر تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ طلبہ کی تحریکیں تاریخ کا رُخ موڑنے اور حالات و واقعات کے دھارے تبدیل کرنے کی استعداد بھی رکھتی ہیں۔
ویت نام کی جنگ زیادہ پرانا قصہ نہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس کی تفصیلات کا علم ہو گا۔ کئی تو اس کے چشم دید گواہ بھی ہوں گے۔ ویت نام دوسری عالمی جنگ سے پہلے فرانس کی نوآبادی تھا۔ جنگ کے دوران اس پر جاپان نے قبضہ کر لیا۔ عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد فرانس نے اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر ویت نامیوں کے قائد ہو چی منہ کی قیادت میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 1954ء میں ڈین بائن پھو کی جنگ (Battle of Dien Bien Phu) میں فرانسیسیوں نے عبرتناک شکست کھائی لیکن ویت نام سے نکلتے نکلتے اس نے ملک کو دو حصوں( شمالی اور جنوبی) میں تقسیم کر دیا۔ شمالی حصے میں ہوچی منہ کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت قائم کر دی گئی اور جنوبی حصے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے انتخابات کے ذریعے عوام کی رائے عامہ معلوم کرنے پر معاہدہ ہوا‘ مگر امریکہ جو تب تک اس خطے میں فرانس کی جگہ لے چکا تھا‘ انتخابات کے وعدے سے مکر گیا اور وہاں کی کٹھ پتلی حکومت کو مالی اور فوجی امداد دے کر مضبوط بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر جنوبی ویت نام کے عوام نے ہتھیار اٹھا لیے اور شمالی ویت نام اور چین کے مدد سے جنوبی ویت نام کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ عوامی مسلح جدوجہد کے سامنے جنوبی ویت نام کی کٹھ پتلی حکومت ٹھہر نہ سکی؛ چنانچہ امریکہ نے 1964ء میں پہلے شمالی ویت نام کو بمباری کا نشانہ بنایا اور اس سے اگلے سال یعنی 1965ء میں امریکہ نے صدر نگو ڈہن ڈائم (Ngo Dinh Diem) کی حکومت کو بچانے کیلئے اپنی فوجیں جنوبی ویت نام میں داخل کر دیں۔ جوں جوں ویت نام کی جنگ میں تیزی آتی گئی اور امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا‘ توں توں امریکی طلبہ میں بے چینی بڑھتی چلی گئی۔ امریکہ کی جانب سے ویت نام میں مداخلت کی اس عملی کوشش کو دیکھ کر امریکی طلبہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ امریکی انتظامیہ کو اس تحریک کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ امریکی انتظامیہ نے ویت نام کی جنگ بند کرنے اور اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ ویت نام سے امریکی فوجیوں کا انخلا 1974ء میں مکمل ہوا تھا۔
اس وقت فلسطین کے حوالے سے تحریک اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ اگر غزہ میں جنگ بندی اور مستقل امن کے قیام کے لیے جلد کوئی معاہدہ نہ ہوا اور مسئلہ فلسطین مستقل طور پر حل کرنے کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا تو ویت نام جنگ کے زمانے کی تحریک کی طرح طلبہ کی فلسطین تحریک میں بھی تیزی آتی جائے گی اور جس طرح ویت نام کی جنگ کے خلاف تحریک نے عالمی سیاست کا رُخ موڑ کے رکھ دیا تھا اسی طرح فلسطینیوں کے حق میں امریکی طلبہ کی یہ تحریک‘ جو اَب ایک عالمی تحریک بنتی جا رہی ہے‘ بھی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست کے معاملات کو تبدیل کر کے رکھ دے گی۔
دعا ہے کہ جاری طلبہ تحریک کامیاب ہو‘ تاکہ غزہ میں جنگ بندی ہو سکے‘ مسئلہ فلسطین حل ہو سکے اور سات دہائیوں سے اسرائیلی نا انصافیوں اور مظالم کا سامنا کرنے والے فلسطینی عوام کو انصاف مل جائے۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ فلسطین کے معاملے میں یونیورسٹی طلبہ کی تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ بڑے اور طاقتور ممالک اتنی نا انصافی اور اس قدر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہی کیوں ہیں کہ طلبہ یا کسی دوسری کمیونٹی کو احتجاجی تحریک چلا کر اپنی حکومتوں اور عالمی برادری کی توجہ رِستے ہوئے خون اور سسکتی ہوئی انسانیت کی طرف دلانا پڑے‘ تحریک چلانا پڑے؟ اقوامِ متحدہ کا ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے اور امن قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ امن قائم ہوا؟ دوسری عالمی جنگ کے بعد کتنی ہی جنگیں ہو چکیں۔ اسرائیل فلسطین تنازع کی بات کی جائے تو کیا یہ بات سب کے علم میں نہیں کہ اسرائیل نامی ملک فلسطین کے ایک حصے پر قائم کیا گیا تھا‘ وہ وہیں تک محدود کیوں نہ رہا؟ پھر اس کی توسیع پسندی کا سدِ باب کیوں ممکن نہ ہو سکا؟ دو ریاستی فارمولے کو عملی شکل کیوں نہ دی جا سکی؟ اور ان ممالک کی پالیسی پر کسی کی نظر کیوں نہیں پڑتی جو ایک طرف اسرائیل کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں اور دوسری جانب غزہ میں شہید ہوتے فلسطینیوں اور تباہ ہوتی املاک پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں؟ یہ دو عملی ‘ یہ دوغلی اور دہری پالیسی اور یہ جانبداری ختم ہو جائے تو شاید کوئی تحریک نہ چلانی پڑے۔ نہ طلبہ کو‘ نہ کسی اور کو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں