عجب احوال ہیں مملکتِ خداداد کے ‘ باقاعدہ تماشا گاہ بنی ہوئی ہے۔ گندم سکینڈل سے پوری قوم کو چونا لگا لیکن کھل کر کوئی کہنے کو تیار نہیں کہ سیکنڈل کے پیچھے کون سے چالاک یامضبوط ہاتھ ہیں۔ دبے لفظوں میں(ن) لیگ والے کہہ رہے ہیں کہ یہ تو نگرانوں کا کیا دھرا ہے لیکن پھر بھی نام لینے سے کترا رہے ہیں۔ اورنام لیں بھی کیسے کیونکہ( ن) لیگی حکومتیں‘ کیا اسلام آباد میں کیا لاہور میں‘ انہوں نے جنم تو نگرانوں کی کوکھ سے لیا ہے۔ حنیف عباسی اور انوارالحق کاکڑ کا قصہ تو اب زبان زدِعام ہوچکا ہے۔ اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں دونوں کا آمنا سامنا ہوا توانوارالحق کاکڑ نے کہا کہ تم ہم پر غلط الزام لگا رہے ہو۔آگے سے حنیف عباسی نے کہا کہ جو میں نے ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا بالکل صحیح ہے اورآپ لوگ چور ہیں۔ اس پر کاکڑ نے کہا کہ (ن) لیگیوں کے 47کے فارموں کی بات کروں تومنہ چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔ یعنی کاکڑ سے بھی نہ رہا گیا اوروہ کچھ کہہ گیا جو ہرپاکستانی کی زبان پر ہے کہ (ن) لیگی حکومتیں فارم 47 کی خصوصی پیداوار ہیں۔
(ن)لیگی نوازشریف کو اپنا سپریم لیڈر سمجھتے ہیں۔ ان کا حال بھی دیکھ لیجئے‘ پھر سے ایک اجلاس کی صدارت فرمائی جہاں میڈم سی ایم پنجاب بھی پہنچی ہوئی تھیں۔ موضوع پھر گندم سکینڈل تھا اور اجلاس میں کہا گیا کہ وزیراعظم کو زحمت دی جائے گی کہ اس سکینڈل پر کچھ روشنی ڈالیں۔ سپریم لیڈر سے کوئی پوچھے ایسے اجلاسوں کی صدارت آپ کس حیثیت میں فرما رہے ہیں۔ وزیراعظم کوئی اور نہیں آپ کا چھوٹا بھائی ہے اور سی ایم پنجاب آپ کی دختر ہیں۔توپھر آپ کو ایسے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بھی یاد رہے کہ سمدھی صاحب‘ یعنی اسحاق ڈار‘ نائب وزیراعظم کے بناوٹی عہدے پر فائز ہیں۔ جب سارا ٹبر کسی نہ کسی حوالے سے اوپر نیچے فٹ ہے توآپ کی بیتابی کی وجہ کیا ہے کہ دختر کی صوبائی حکومت جو اَب تک کوئی ثبوت مہیا نہیں کرسکی کہ صحیح معنوں میں چل رہی ہے‘ اُس میں ویسے ہی آپ دخل اندازی فرمائیں۔ اوپر سے ہمارے دوست جاوید لطیف کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب چوتھی باروزیراعظم بنیں گے۔ بھلے ساتویں بار بنیں لیکن اپنے زور پر بنیں۔فروری 8کو تو یاسمین راشد کے ہاتھوں پٹ گئے اورفارم 47کا نسخۂ کیمیانہ ہوتا توقومی اسمبلی میں نہ پہنچ پاتے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ پاؤں اتنے پھیلائیں جتنی چادر ہے۔چادرسکڑ کے رہ گئی ہے اور فارم 47کے مرہونِ منت ہے‘(ن) لیگی بڑھکیں پھر حالات کے مطابق ہونی چاہئیں۔
ابھی تک تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ نوازشریف اوراُن کے قریبی حواریوں کا زیادہ غصہ پی ٹی آئی سے ہے یا کرتے دھرتوں سے۔ دنیا جانتی ہے کہ جوکچھ (ن)لیگ اس وقت ہے فارم 47اوراندھیروں کی وجہ سے ہے۔ ملاحظہ ہوکہ نوازشریف وغیرہ یہ نہیں کہہ رہے کہ فارم 47کے جلوؤں کو مانتے نہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جو مہربانی ہوئی وہ تھوڑی تھی‘ ہمارے پلڑے میں بہت کچھ اورڈالنا چاہیے تھا اور شہبازشریف کی وزیراعظم بننے کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی کیونکہ اس منصب کے واحد حقدار تو سپریم لیڈر ہیں۔یعنی غصہ ہے کہ مہربانیاں کرتے ہوئے ہاتھ کھنچا کیوں رہا۔ واہ سپریم لیڈر‘ آرزوئیں ہوں توایسی ‘ غصہ ہو تو ایسا ۔
شروع میں مولانا فضل الرحمن کا بھی یہی غصہ تھا کہ اوروں پر مہربانی ہوئی توہم پر کیوں نہیں۔لیکن اب سنبھل گئے ہیں اور سب سے قوی مقتدرہ مخالف رہنما لگتے ہیں۔جو اُن کی حالیہ تقریر کراچی میں ہوئی‘ سننے کے لائق ہے۔کس طریقے سے اُنہوں نے حالات کا جائزہ لیا اوراصل فیصلہ سازوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس میں داد مولانا کی بنتی ہے کہ جلد ہی اپنے لیے صحیح اور مؤثر راستہ متعین کرلیا۔ لیکن بڑوں کو دیکھئے ‘سوچ کی اصلاح کی وہاں کوئی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔ جب سے سیاست میں آئے یا لائے گئے اُس دن سے لے کر آج تک ایک ہی اَپروچ ہے کہ ہرچیز اُنہیں ملتی رہے اورملنے میں ذرا برا بر توقف نہ ہو۔ اب چونکہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے حق سے اُنہیں کم ملا ہے توتلملانے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
چلیں یہ تو ہوئی بڑوں کی کیفیت لیکن ہمیں کوئی یہ تو بتائے کہ یہ گندم سکینڈل پیدا کیسے ہوا؟آپ کے پاس گندم کے ذخائر ہوں اور نئی فصل آنے والی ہو اورپھر بھی آپ اڑھائی تین سو ارب روپے کا ٹیکہ گندم کی امپورٹ کی مد میں قوم کو لگائیں‘ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ جنہوں نے یہ کیا ایک ایک کرکے '' تمغۂ شجاعت ‘‘کے مستحق ہیں۔ سب کو پتا ہے کہ نگران سیٹ اَپ والوں کا کِلہ مضبوط ہے‘ان پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ ان کا یہ کمال بھی دیکھیں کہ کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے لیکن وزیرداخلہ بن گئے اور اس کے بعد سینیٹر بھی خاصے بآسانی ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں مضبوط کِلہ۔ انوارالحق کاکڑ کا حنیف عباسی سے آمنا سامنا ہوا توگندم سکینڈل کے حوالے سے الزامات کی تردید پراکتفا نہ کیا بلکہ یہ پھبتی کسے بغیر نہ رہ سکے کہ تمہاری جماعت کے فارم 47کا ذکر ہوا توچھپتے پھروگے۔ اب کاکڑ سے یہ کوئی پوچھے کہ گندم سکینڈل میں اپنا دفاع کرنا تو ایک بات ہوئی لیکن یہ کہاں کی حکمت ہے کہ الیکشن ڈکیتی کا الزام‘ جوپورے نگران سیٹ اَپ پر ہے‘ ایک طریقے سے آپ اُسے تسلیم کر رہے ہیں؟ ایسے کاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے‘ بات نکلے تودور تلک پہنچ جاتی ہے۔
حکومتی کاروان کا یہ حال ہے کہ پتا ہی نہیں چل رہا کہ سمت کیا ہے اورمنزل کون سی۔لیکن نااہلی کا تمام غصہ ایک چیز پر نکالاجا رہا ہے‘ سوشل میڈیا۔ سوشل میڈیا اعصاب پر سوار ہے ‘ اب تو ہرجگہ اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ بس اس کا علاج ہم کر لیں توسب ٹھیک ہو جائے گا۔ پچھلے دنوں ایک ہائی لیول میٹنگ ہوئی تھی تواُس کا موضوع سوشل میڈیا تھاکہ اس بلا کو کیسے کنٹرول میں لایا جائے۔ایک ہائی لیول تقریب تھی ‘ اس میں بھی گھوم پھر کر اشارہ سوشل میڈیا کی طرف تھا۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملکی سطح پر مخاصمت ایک مخصوص جماعت یعنی پی ٹی آئی سے چل رہی ہے اور پی ٹی آئی کا سب سے مؤثر ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔اوروں نے بہت جتن کیے کہ وہ بھی سوشل میڈیا کے ماسٹر و چیمپئن بن جائیں لیکن جوپی ٹی آئی کو اس میڈیم پر قدرت حاصل ہوئی ہے کوئی اور اس کے قریب نہیں پہنچ سکا۔ اسی لیے آج کل تمام غصہ سوشل میڈیا پر ٹوٹ رہا ہے۔
ٹویٹریا ایکس پر پابندی کچھ ماہ سے لگی ہوئی ہے لیکن کام نہیں بن رہا۔ ایک تو ٹویٹریا ایکس تک لوگ مختلف ذریعوں سے پہنچ ہی جاتے ہیں اورپھر سوشل میڈیاصرف ٹویٹر یا ایکس تک محدود نہیں۔ یہ تو ایک لامتناعی سلسلہ ہے۔ سوچیں تو سہی ‘جسے ہم سائبرسپیس کہتے ہیں اُس کی تشبیہ ایک لحاظ سے آسمانوں سے بنتی ہے۔یعنی سائبرسپیس کو کنٹرول کرنے کا مطلب ہے آپ آسمانوں کو کنٹرول کرناچاہ رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
الیکشن چرائے جائیں گے توخبرآسمانوں تک پہنچ جائے گی۔ گندم سکینڈل ہوگا توخبریں اُچھلیں گی۔ اعمال درست ہوں تو سوشل میڈیاخودبخوددرست ہو جائے گا۔