ن لیگ کی سیاسی اہمیت کیلئے نواز شریف ناگزیر کیوں ؟

ن لیگ کی سیاسی اہمیت کیلئے نواز شریف ناگزیر کیوں ؟

(تجزیہ: سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے اندر جہاں پارٹی کے بھرپور سیاسی کردار کے حوالہ سے تحریک محسوس کی جا رہی ہے وہاں اس کیلئے نواز شریف کی صدارت کو اہم قرار دیا جا رہا ہے اور اس حوالہ سے مسلم لیگ ن پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے پارٹی کی صدارت دوبارہ سے نواز شریف کو سونپنے کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔

اور قرارداد میں بتایا گیا ہے کہ کن حالات میں 2017میں نواز شریف کی قیادت کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کی حکومتی سیاسی اور جماعتی کردار پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہوئی اور ناگزیر وجوہات کی بنا پر پارٹی صدارت کیلئے وزیراعظم شہباز شریف کو صد ر بنایا گیا ، 11 مئی کو پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس بھی بلایا جا رہا ہے جس میں پھرسے نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنایا جائے گا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ن لیگ کیلئے نواز شریف ہی ناگزیر کیوں ؟کیا نواز شریف کی قیادت میں ن لیگ اپنی مقبولیت اور سیاسی کردار ادا کر پائے گی ،بلاشبہ ن لیگ کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کے تین ادوار کی بڑی خدمات خصوصاً پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ،بجلی بحران کا مداوا اور خصوصاً عوام کی ریلیف کیلئے مختلف اقدامات شامل ہیں اور نواز شریف کی حکومت میں اصل سیاسی کردار نواز شریف ہی سرانجام دیتے نظر آتے تھے لیکن ان کے پس منظر میں ان کے چھوٹے بھائی موجودہ وزیراعظم شہباز شریف حکومتی سیاسی اور عوامی محاذ پر ڈیلور کرتے دکھائی دیتے تھے ، کچھ ذرائع نواز شریف کی جانب سے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بنانے پر کہتے دکھائی دیئے کہ یہ عمل پارٹی اور خاندان میں تفریق یا تقسیم کا باعث بن سکتا ہے اور بعض سینئر رہنماؤں نے اس پر تحفظات بھی ظاہر کئے تاہم اصل اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ن لیگ نواز شریف کی پارٹی صدارت اور قیادت کو ناگزیر سمجھتی ہے اس کی بڑی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ن لیگ کی مقبولیت میں بڑا کردار نواز شریف کا تھا اور ہے اب جبکہ ن لیگ نے مشکل صورتحال میں مرکز اور پنجاب میں حکومتیں تو لے لیں لیکن یہ حکومتیں اپنی کارکردگی کے حوالہ سے ن لیگ کی تقویت کا باعث بنتی نظر نہیں آ رہیں ،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹی کے موثر اور فعال کردار کیلئے نواز شریف کی طرف ہی لوٹا جائے اور ایسا سیاسی بیانیہ سامنے لایا جائے جسے عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہو لیکن اپنی ہی حکومتوں کی موجودگی میں کوئی جوہری بیانیہ لایا جا سکتا ہے یہ دیکھنا ہوگا البتہ تنظیمی تبدیلی کے حوالہ سے پہل پنجاب مسلم لیگ ن اور خصوصاً پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خان نے کی ہے اور اپنا تنظیمی اجلاس بلا کر پنجاب کو اس تجویز کے پیچھے لا کھڑا کیا ہے ، ایسے ہی اجلاس جلد سندھ ،بلوچستان اور پختونخواہ میں بھی ہوں گے ،مذکورہ صورتحال کا بڑا سبق یہ ہوگا کہ سیاسی قیادتوں کو سیاسی عمل کے بغیر حکومتوں سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی اور جماعتی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں