اسلام آباد ہائیکورٹ:ٹیلی کام کمپنیز کو فون کال ریکارڈ نگ، ڈیٹا تک رسائی سے روک دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ:ٹیلی کام کمپنیز کو فون کال ریکارڈ نگ، ڈیٹا تک رسائی سے روک دیا

اسلام آباد (رضوان قاضی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں ٹیلی کام کمپنیز کو نگرانی کے لئے فون ریکارڈنگ سے روکتے ہوئے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی اور اس کے استعمال سے بھی روکنے کا حکم جاری کر دیا ۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کہ اگر ٹیلی کام کمپنیز کے آلات غیر قانونی نگرانی کے لئے استعمال ہوئے تو ان پر اس کی ذمہ داری عائد ہو گی ، وزیر اعظم آفس،وزارت دفاع، داخلہ، پی ٹی اے و دیگر ادارے کہہ چکے کسی کو ٹیلی فونک گفتگو کی سرویلنس کی اجازت نہیں دی گئی ، غیر قانونی سرویلنس ایک جرم ہے جس کی قانون میں سزا موجود ہے ،جسٹس بابر ستار نے سابق وزیراعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی آڈیو لیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل منظور اقبال دوگل کو مخاطب کر کے کہا آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی، اگر آپ اب اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے ، قانون کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپ کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وقت طلب کیا تو جسٹس بابر ستار نے کہا ‘آپ کو نہیں پتہ تھا کہ آج کیس لگا ہوا ہے ، ایک سال سے یہ پٹیشنز زیر سماعت ہیں ،اگر وفاقی حکومت عدالت میں جھوٹ بولے گی تو بات کیسے آگے بڑھے گی ، وزیر اعظم آفس و دیگر اداروں کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی جا چکی ہیں ، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو لیگل انٹرسیپشن کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا وہ جواب پٹیشنر کی آڈیو لیکس کی حد تک تھا۔ جسٹس بابر ستار نے کہا جو بھی ہے آپ بتائیں شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت آپ ریکارڈ کر رہے ہیں، زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں،آپ بتائیں آپ نے کس کو اجازت دے رکھی ہے ، کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ شہریوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں ، قانون کہتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور دیگر گریڈ بیس کے افسر کو نوٹیفائی کریں گے جو سرویلینس کی اجازت کے لئے درخواست دیں گے ، اگلا مرحلہ حکومتی وزیر کی جانب سے سپورٹنگ مٹیریل دیکھ کر سرویلنس کی اجازت دینا ہے جس کی حتمی منظوری عدالت دیتی ہے۔

اس قانون میں بھی پرائیویسی کو مدنظر رکھا گیا ہے ، یہ بتائیں کہ اگر سرویلنس کی اجازت دی گئی تو وہ اجازت کہاں ہے ؟ عدالت نے سوالات اٹھائے کہ کیا کبھی کسی خفیہ ریکارڈنگ کے لئے اِس قانون کے تحت آج تک عدالت سے اجازت مانگی گئی ؟ قانون کے تحت ہر چھ ماہ بعد کسی کی ایسی خفیہ ریکارڈنگ کے اجازت نامے پر نظر ثانی کی جائے گی ، کیا کوئی ایسی نظر ثانی کمیٹی آج تک بنی ؟ عدالتی اجازت کے بغیر فون ریکارڈنگ اور فون ریکارڈنگ کی فراہمی بھی قابلِ سزا ہے ، کیا پی ٹی اے کے لائسنس کی شرائط میں یہ چیزیں شامل ہیں یاپی ٹی اے نے اس حوالے سے کوئی پالیسی دی ہے ؟ اس قانون کو پچھلے ایک سال میں فالو کیا گیا ہے یا نہیں ؟ بتائیں کہ غیر قانونی ٹیلی فون ریکارڈنگ پر کیا ایکشن لیا گیا ؟ آپ نے کیا تحقیقات کیں کہ سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس کیسے وائرل ہوئیں ؟ ، سوشل میڈیا پر کوئی چیز اپلوڈ ہو تو آئی پی ایڈریس سے ٹریک ہو سکتی ہے ، ایف آئی اے و دیگر اداروں کو کہا ٹریک کر کے بتائیں تو انہوں نے کہا ان کے پاس یہ صلاحیت نہیں، پھر تو یہ اداروں کی ناکامی ہوئی ، ایف آئی اے اور پولیس کا کیا کام ہے ؟ اس معاملے میں ابھی تک ایف آئی آرز درج کیوں نہیں کی گئیں ؟ ایک ملک میں اگر کرائم ہوا ہے تو آپ انتظار کریں گے کہ کوئی آ کر شکایت کرے تو تحقیقات کریں ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو خط لکھا ہے اور جواب کا انتظار ہے ،جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر جواب مزید دس سال نہیں آئے گا تو آپ کیا کریں گے ؟ ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ اس معاملے کی انکوائری چل رہی ہے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو وفاقی حکومت سے ہدایات لینے اور عدالتی سوالوں کے جواب جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق سے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی گفتگو کے اعدادوشمار کا ریکارڈر بھی طلب کر لیا اورکہا آپ اس متعلق بھی جواب دیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کس قانون کے تحت یہ ریکارڈ کیں ؟ چیف جسٹس کی سرویلنس بھی ہوئی تھی جس پر جواب سپریم کورٹ میں داخل ہوئے تھے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں