وزیراعظم یہ بھی بتائیں حکومت اپوزیشن ڈیڈلاک کیوں؟

وزیراعظم یہ بھی بتائیں حکومت اپوزیشن ڈیڈلاک کیوں؟

تجزیہ: سلمان غنی وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی محاذ پر اپنی تین ماہ کی حکومتی کارکردگی پر اعتماد میں لیتے ہوئے باور کرایا ہے ملک معاشی مشکلات سے نکل کر ترقی کی جانب گامزن ہو رہا ہے لیکن جب وہ پانچ سالہ پروگرام کی نتیجہ خیزی کی بات کرتے ہیں۔

 تو سوال اٹھتا ہے کہ اس حوالے سے جس استحکام کی ضرورت ہے کیا وہ یقینی بن پائے گا۔اچھی بات ہوتی کہ وزیراعظم اپنی حکومت کے سو روز کی کارکردگی بارے بتاتے ہوئے سیاسی محاذ کی کیفیت سے بھی قوم کو آگاہ کرتے اور سمجھاتے کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک ہے اور یہ ٹوٹنے کی کوئی امید کیونکر دکھائی نہیں دے رہی اور اگر یہ سلسلہ اس طرح برقرار رہتا ہے تو ممکنہ اصلاحات اور اقدامات کا سفر کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔وزیراعظم کے خطاب کو اس حوالے سے حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ بنیادی ضروریات کے حصول میں لوگوں کو تکلیف ہوئی لیکن کیا اس حوالے سے حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں؟ انہیں یہ بتانا چاہئے تھا اس امر پر بھی دو آرا ہیں کہ ایک طرف پٹرولیم قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اور حکومت اس کا کریڈٹ بھی لیتی ہے تو دوسری جانب بجلی قیمتوں میں اضافہ کے جھٹکے بھی عوام کو لگ رہے ہیں ،عملاً حکومت صنعتی عمل چلانے کیلئے تو بجلی نرخوں میں دس روپے کمی کر رہی ہے دوسری جانب عوام کو ملنے والی بجلی قیمتوں میں پانچ روپے اضافہ کیا جا رہا ہے یہ بڑا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صنعتکار اور سرمایہ کار اپنے مفادات پر زد پڑنے نہیں دے رہے اور ملکی ترقی میں اپنا ممکنہ کردار ادا کرنے کو تیار نہیں، شہباز شریف بار بار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عوام نے بہت بوجھ اٹھا لیا اب اشرافیہ کی باری ہے مگر عملاً بوجھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر عام آدمی اور تنخواہ دار پر ہی پڑتا ہے ،اشرافیہ پھر کب بوجھ اٹھائے گی؟،جب تک ثمرات سمیٹنے والے اپنا حصہ ادا نہیں کریں گے ہم معاشی بحران سے نہیں نکل پائیں گے اور یہ کام صرف اور صرف وزیراعظم ہی کر سکتے ہیں جن کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ جس ایشو کو حل کرنے کا تہیہ کر لیں وہ اسکی کامیابی کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں ،اگر پٹرولیم نرخوں میں کمی کا کریڈٹ حکومت کا ہے تو پھر انہیں بجلی کے بلوں کو عوام کی پہنچ میں لانے کیلئے بھی کردار ادا کرنا پڑے گا، وزیراعظم آئندہ ڈیڑھ ماہ کو معاشی محاذ پر فیصلوں کے ضمن میں اہم قرار دے رہے ہیں تو انہیں بجٹ کے ضمن میں تنخواہ دار طبقات پر ٹیکسیشن کے عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اور بوجھ تنخواہ دار طبقات پر ڈالنے کے بجائے انہیں مراعات یافتہ طبقات اور اشرافیہ تک منتقل کرنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں