آپریشن عزم استحکام پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کامطالبہ جائز

آپریشن عزم استحکام پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کامطالبہ جائز

(تجزیہ:سلمان غنی) قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے ملک میں کسی بھی قسم کے آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کوئی اپیکس کمیٹی پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں کسی بھی آپریشن کے لئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔

 اس حوالے سے کوئی فیصلہ یا معاہدہ پہلے پارلیمنٹ میں لایا جائے ۔ مذکورہ ردعمل پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور اسد قیصر نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے  گفتگو کے دوران کیا۔ یہ ردعمل ایک روز قبل اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کیلئے آپریشن عزم استحکام کے ضمن میں لایا گیا اور اس میں جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ تمام سٹیک ہولڈرز بشمول چاروں صوبوں گلگت آزاد کشمیر کے درمیان اتفاق رائے کے بعد اس آپریشن کی منظوری دی گئی اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قومی عزم کا اظہار کیا گیا، لہٰذا دہشت گردی کے خلاف بڑے آپریشن پربڑا ابہام کیوں؟۔ پی ٹی آئی ایسے کسی آپریشن کی مخالفت پر مصر کیوں ہے کیا دہشت گردی کے خلاف آپریشن ناگزیر نہیں اور آخر کس طرح اور کیسے دہشت گردی سے ناسور سے چھٹکارا حاصل کیا جا رہا تھا۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی تحریک انصاف کی جانب سے مخالفت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بیرسٹر گوہر ایوب کا یہ مطالبہ تو جائز ہے کہ اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر اس کے خدوخال طے کئے جائیں اور اس آپریشن کے لئے پوری قوم کی حمایت ضروری ہے تو جس اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی اس اجلاس میں خود خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی موجود تھے اور انہوں نے کیا ایسے کسی آپریشن کی مخالفت کی تھی اور اس حوالے سے کوئی تحفظات ظاہر کئے تھے اگر ایسا نہیں تھا اور پھر تحریک انصاف کی جانب سے آپریشن کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کے عمل پر بھی سیاست کرنا چاہتی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا رجحان خود پاکستان کی معاشی بحالی اور ترقی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہے ۔

اس ضمن میں ایسی فضا ضروری ہے جس میں معاشی سرگرمیاں احسن انداز میں جاری ہوں اور اسی ضمن میں حکومت نے اہل سیاست کو اعتماد میں لینے کی ایک سنجیدہ کوشش کی اور تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی رہنماؤں نے پاک چین تعلقات ،معاہدوں اور خصوصاً سی پیک سے یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے اس کی مکمل تائید و حمایت کی لیکن اس کے دوسرے ہی روز اس کی مخالفت کی اور اجلاس موخر کرتے ہوئے اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں منتخب قیادت اور عسکری ذمہ داران نے سر جوڑ کر باہم غور و خوض کے بعد مذکورہ آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا ویسے تو اچھا ہوتا کہ وزیراعظم شہباز شریف مذکورہ آپریشن کا اعلان پارلیمنٹ میں کرتے تاکہ ایک طرف اس حوالے سے پارلیمنٹ کی تائید بھی حاصل ہوتی اور دوسری جانب دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچتا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ بہت سنجیدہ ہے اور اس کے سدباب کیلئے ممکنہ اقدامات پر پرعزم ہے جہاں تک پی ٹی آئی کے تحفظات کا تعلق ہے تووہ سمجھتے ہیں کہ آپریشن انتہائی ناگزیر ہے تو اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ ماضی میں کون سے آپریشن کیلئے کامیاب ہونے پر قوم کو بتایا جاتا رہا ہے ۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم اپیکس کمیٹی میں کامیاب ہونے والے فیصلوں کا اعلان پارلیمنٹ میں کرتے یہاں وہ عوامل ظاہر کرتے جن کی وجہ سے دہشت گردی کے رجحان کو تقویت ملی اور اپنے دوست ممالک کے خدشات پر تو اعتماد میں لیا جاتا اور اس میں ان کے پاس وقت ہے کہ وہ آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے سکتے ہیں ویسے تو ایوان کے اندر والے قانون سے ایسا اشارہ دیا ہے کہ پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف آ کر بات کریں گے ۔

اچھا ہوتا کہ آپریشن عزم استحکام پر گفتگو کرتے کیونکہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے تحفظات خودبخود دورہوجاتے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے رجحان کی ایک بڑی وجہ افغانستان کے حالات بھی رہے ہیں کہ براہ راست اثرات ہم پر پڑے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ سرحد پار کے حالات تھے جس نے پاکستان کو دہشت گردی کی خوفناک صورتحال سے دوچار کیا اور بعد ازاں وہاں ہونے والی سیاسی تبدیلی کے باوجود افغان سرزمین کا استعمال پاکستان کے خلاف جاری رہا اور آج جب پاکستان معاشی حوالے سے ٹیک آف کرنے کی پوزیشن میں ہے تو پھر سے یہی سکیورٹی خدشات اثر انداز ہوتے ہیں لہٰذا اس کے سدباب کیلئے ضروری ہے کہ قومی یکجہتی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق سے عمل کیا جائے اور دہشت گردی جیسے ناسور کو کچلنے کے عمل پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ وزیراعظم شہباز شریف جہاں مخلوط حکومت سے کٹھن معاملہ کو لے کر چل رہے ہیں ا س حوالے سے پی ٹی آئی سے الحاق میں موجودہ لیڈر شپ کو اعتماد میں لینے کا اعلان کریں اگر وہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ بیٹھنے پر راضی نہ ہوں تو اس سے ان کی بدنیتی اور سیاست سامنے آ جائے گی جہاں تک آپریشن عزم استحکام کا سوال ہے تو اس کا مقصد انسداد دہشت گردی کے قومی عزم کو متحرک کرنا ہے اور امید ہے کہ یہ کوشش اور کاوش دہشت گردی کے ناسور کو کچلنے میں معاون ثابت ہو گی اور اس میں صوبوں کو دی جانے والی ذمہ داری اور کردار پر صوبوں کو بھی سنجیدگی ظاہر کرنا ہو گی۔ وزیراعظم شہبازشریف کا فیصلہ درست ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی ذمہ داری صرف فوج پر نہیں اس حوالے سے سب کی ذمہ داری ہے جو ادا کرنا ہو گی۔ چینی وزیر نے سکیورٹی صورتحال کے سوال سے پاکستان کو یہ واضح پیغام دیا ہے اور اب گیند پاکستان کی کورٹ میں ہے کہ پاکستان ان حالات سے نمٹنے کیلئے کیا حکمت عملی اور لائحہ عمل اختیار کرتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں