الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قائمہ کمیٹی میں کثرت رائے سے منظور

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قائمہ کمیٹی میں کثرت رائے سے منظور

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کی کثرت رائے سے منظور کر لیاگیا،بل کے حق میں 8 اور مخالفت میں4 ووٹ آئے ، پی ٹی آئی نے مخالفت کی، جے یو آئی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور پی پی اجلاس میں شریک نہیں ہوئی۔

 اس موقع پر پی ٹی آئی کے علی محمد خان اور اعظم نذیر تارڑ کے درمیان تلخی ہو گئی جبکہ پی ٹی آئی رکن سیکرٹری الیکشن کمیشن سے بھی نوک جھوک کرتے رہے ۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہامجوزہ قانون میں ترامیم آئین اور قانون کے مطابق ہے ، آزاد ارکان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اور مخصوص نشستوں کا معاملہ واضح ہے ۔پی ٹی آئی کے علی محمد خان کا کہنا تھا یہ نجی بل ہے اس بل پر وزیر قانون وکالت نہ کریں، جس نے بل پیش کیا اسے تشریح کرنی چاہیے ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس چیئرمین رانا ارادت شریف کے زیر صدارت ہوا،بلال اظہر کیانی نے بل پرقائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی، الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل جسے الیکشن(دوسرا ترمیمی) ایکٹ 2024 کا نام دیا گیا، اس میں پہلی ترمیم سیکشن 66 اور دوسری ترمیم سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ۔پہلی ترمیم کے مطابق کسی سیاسی جماعت کی جانب سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا جب کہ دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔ بل کے حق میں 8 اور مخالفت میں4 ووٹ آئے ، جے یو آئی کی رکن شاہدہ اختر علی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ کی گفتگو پر علی محمد خان نے اعتراض کرتے ہوئے کہا یہ پرائیویٹ ممبر بل ہے حکومت کا نہیں ، اعظم نذیر تارڑ نے کہا آپ ریگولیٹ نہ کریں آپ نے بیچ میں بولنا شروع کردیا ہے ۔ علی محمد خان نے کہا آپ ان کی وکالت نہیں کرسکتے ،جس نے بل پیش کیا، اسے تشریح کرنی چاہیے ، لگتا ہے نجی بل وزیر قانون کی منشا سے آیا ہے ۔ اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا اگر میں مطمئن ہوں تو میں ان کی وکالت کروں گا، آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے ۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا یہ بل بہت ساری کنفیوژن کو دور کرتا ہے ، پارلیمان قانون ساز ادارہ ہے عدالتیں صرف تشریح کرتی ہیں، جہاں پارلیمان کو لگے اس کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے یا آئین کو دوبارہ لکھا جارہا ہے ، وہاں پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہے ۔بلال اظہر کیانی نے کہا کوئی رکن الیکشن جیت کر ڈیکلیریشن جمع نہیں کراتا تو وہ آزاد رہے گا، ترمیم کے ذریعے اس ابہام کو دور کیا جا رہا ہے ۔

علی محمد خان نے کہا کیا اس کا اطلاق ماضی پر ہو گا یا مستقبل پر؟ وزیر قانون نے کہا الیکشن ایکٹ میں پہلے بھی ترمیم کی گئی اور اس کا اطلاق ماضی سے ہوا، جس کے تحت تاحیات نا اہلی کا قانون ختم کیا گیا، کریمنل ایکشن جہاں ہوں گے وہاں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ علی محمد خان نے کہا ہمارے خلاف بھی سپریم کورٹ کے بڑے فیصلے آئے ، یہ بل پارلیمنٹ بمقابلہ سپریم کورٹ ہو گا۔ وزیر قانون نے کہا سپریم کورٹ میں درخواست گزار سنی اتحاد کونسل تھی تحریک انصاف نہیں، قانون یہ نہیں کہتا میٹھا میٹھا کھالیں اور کڑوا کڑوا تھوک دیں۔ صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا اس وقت جو صورتحال ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ رکن کمیٹی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے کام کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ، ہم عوام کی بھلائی کیلئے قانون سازی کرتے کیا اچھا ہوتا یہ آئی پی پیز کے خلاف قانون سازی لاتے جب بھی ایسی ایمرجنسی آتی ہے اس طرح کے قانون آجاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن سینڈوچ بنا ہوا ہے ، اس طرح کی قانون سازی سے پارلیمان کمزور ہوگا اور میرا ضمیر ملامت کرتا رہے گا، حکومت جب چاہتی ہے جلد بازی میں قانون سازی کرتی ہے ۔ اجلاس کے دوران علی محمد خان اور سیکرٹری الیکشن کمیشن میں بھی نوک جھوک ہوئی، علی محمد خان نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے رائے پوچھی ، سیکرٹری نے کہا ہماری کوئی رائے نہیں ۔علی محمد خان نے کہا اگر الیکشن کمیشن کے حکام اتنے ہی نازک مزاج ہیں تو انہیں کمیٹی میں نہ بلایا جائے ، سوالوں کے جوابات کی تیاری کرکے آیا کریں، الیکشن کمیشن کے اعتراضات درست ہیں تو کیسے 39 ٹھیک اور 41 غلط ہیں؟ ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا اور دبائو ڈالا گیا کہ پارٹی حلف نامہ جمع نہ کرائیں۔ وزیر قانون نے کہا آپ یہ پنڈورا باکس نہ کھولیں، یہ سب ہمارے ساتھ بھی ہوا۔علی محمد خان نے جواب دیاآپ کے ساتھ بھی غلط ہوا اور ہمارے ساتھ بھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں