سی پیک نے پاک چین دوستی کو غیرمعمولی رنگ دیا
(تجزیہ: سلمان غنی) کہتے ہیں کہ محبت اور تعلق دوطرفہ ہوتا ہے اور تعلق کی یہ نوعیت کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی ،ویسے تو چین اور پاکستان کے درمیان تاریخی، معاشی اور سیاسی تعلقات عرصہ دراز سے قائم ہیں اور ہر مشکل اور کڑے دور میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کے کھڑے نظر آتے رہے ہیں۔
مگر سی پیک کا عمل ایک ایسا معاملہ اور معاہدہ ہے جس نے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعلق کو غیر معمولی رنگ دیا ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف بیرونی محاذ پر چین کے حوالے سے بڑے جذباتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ دوستی اور تعلق میں دیکھا جاتا ہے کہ برے وقت میں کون کام آیا ،چین وہ ملک ہے جس کی دوستی پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا ۔وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے دورے سے آئے صحافیوں سے فرداً فرداً چین کے حوالے سے سوالات کئے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ بلاشبہ چین ہمارا عظیم دوست ہے ۔ اس کا اعتماد اور اعتبار ہماری وہ طاقت ہے جس پر ہم اپنی معاشی خودانحصاری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
ہم نے امریکی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں انہیں باور کرا دیا کہ پاکستان امریکا سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے مگر یہ دوستی اور تعلق چین کی قیمت پر نہیں ہوگی ، چین ہماری اولین ترجیح ہے اور اس کی وجہ اس کا ہمارے ساتھ خلوص اور تعلق ہے جس کو ہم کسی بھی سطح پرنظرانداز نہیں کرسکتے ۔موجودہ حکومت اور چینی قیادت کے درمیان تعلقات کا نیا سلسلہ علاقائی اور عالمی صورتحال کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ امریکا اور چین کے درمیان جاری نفسیاتی جنگ میں کوئی بھی ملک ایک ہی وقت میں دونوں کو خوش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور کہا جاتا ہے کہ تعلق وہی کارگر ہوتا ہے جو مضبوط او ر نتیجہ خیز ہو ، پاکستان یہ تو نہیں چاہے گا کہ چین امریکا تناؤ کے مضر اثرات پاکستان پر پڑیں ۔منتخب قیادت اور مسلح افواج میں ، سربراہ جنرل عاصم منیر ، ملکی مفادات کے تحفظ ،چین کی دوستی ، پاک چین معاشی معاملات اور خصوصاً سی پیک کیلئے اتفاق رائے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین آج کی پاکستانی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتا نظر آتا ہے اور اس میں بڑا کردار وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین کا ہے ۔
اس دورہ کے دوران چینی صدر کے آبائی علاقے کا دورہ شہباز شریف سے ان کے خصوصی تعلق کا عکاس ہے ،شہباز شریف جنرل عاصم منیر کو ساتھ لیکر گئے تھے ،جسے چینی لیڈر شپ پاکستان کے معاشی مشکل کے حوالہ سے اہم سمجھتی ہے ۔ماہرین اس بات پر مضر ہیں کہ جب بھی پاکستان معاشی حوالہ سے سنجیدہ اقدامات کرتا نظر آتا ہے تو پاکستان میں دہشت گردی اور معاشی و سیاسی محاذ میں تناؤ اور ٹکراؤ شروع ہو جاتا ہے ۔ آج کل پاکستان کی حکومت پھر سے ایسے ہی حالات سے دوچار ہے ۔ شہباز شریف نے گزشتہ روز چین کا دورہ کرنے کے حوالے سے صحافیوں سے اپنی نشست میں کچھ دل کی باتیں کھول کرکہیں ، انہوں نے کہا ہمیں ہر قیمت ، ہر حال میں آگے بڑھنا ہے اور اس میں ہمیں چین کی مدد معاونت حاصل ہے ۔انہوں نے کہا کہ دشمن اب سمجھ رہا ہے کہ پاکستان کو اگر آج نہ پکڑا گیا تو پھر یہ پکڑا نہیں جائے گا لہٰذا سازشیں عروج پر ہیں اور دہشت گردی کا رجحان بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے ۔ بھارت دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرکے یہاں نئی صورتحال طاری کرنا چاہتا ہے لیکن حکومت اور فوج پرعزم ہے کہ ہم نے اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا ہے اور دہشت گردی کو شکست دینا ہے ،جب پاکستان میں چینی انجینئرز اور ان کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا تو مطلب واضح ہے کہ چین یہاں ہضم نہیں ہو پا رہا اور چین کو پاکستان سے متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن میں فخر سے کہتا ہوں کہ چین نے کسی بھی مشکل مرحلے میں ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے ظاہر ہو کہ وہ پریشان ہے ۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک موقع پر کہاتھا کہ ہم کشمیر سے صرف نظر برت سکتے ہیں لیکن سی پیک کو ہضم نہیں کرسکتے کیونکہ یہ عمل پاکستان کی معاشی مضبوطی کا ضامن ہے ۔ملک میں سیاسی محاذ پر تناؤ کی کیفیت اپنی جگہ لیکن ایک بات عیاں ہے کہ آخر پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے فیصلہ ساز معاشی بحالی دہشت گردی کے سدباب اور سی پیک کے مستقبل کے حوالہ سے یکسو ہیں اور یہی ون پیج ہے ۔اگر ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس حوالہ سے بڑے مسائل کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور حکومتوں نے اپنے سیاسی مفادات کے تابع ہوکر معاشی صورتحال کو جو نقصان پہنچایا آج اس کی قیمت پاکستان اور پاکستان کی موجودہ حکومت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ، اس حوالہ سے اطمینان ضرور ہے کہ بیرونی محاذ پر پاکستان کا دوست خصوصاً چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے ، اندرونی محاذ اوردفاعی محاذ پر کھڑی حکومت کے دفاع کیلئے قوتیں بھی پشت پر ہیں ، یہی بات حکومت کو مطمئن رکھے ہوئے ہے ۔