فیض حمید فوجی تحویل میں، کورٹ مارشل شروع
راولپنڈی(خصوصی نیوز رپورٹر)پاک فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ٹاپ سٹی کیس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف شکایات کی تفصیلی تحقیقات کیں، جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مناسب تادیبی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے، ان پر ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد مواقع پر پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات بھی ثابت ہوئے ہیں،اس حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا جا چکا ہے اور انہیں فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے ۔ترجمان پاک فوج (ڈی جی آئی ایس پی آر)میجر جنرل احمد شریف نے کہا 7مئی کو ہونے والی پریس کانفرنس میں فوج کے خود احتسابی کے خدو خال کو تفصیل سے بیان کر چکے ہیں،فوج میں خود احتسابی ایک کڑا، سخت، شفاف اور خود کار عمل ہے جو ہر وقت جاری رہتا ہے، جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری، ہمیں اپنے نظام احتساب پر فخر ہے ۔
خیال رہے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سکیم کے مالک معز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں مو قف اپنایا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر)فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں، ملاقات کے دوران لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کر دیں گے ، آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل کو سپانسر کرنے پر مجبور کیا، آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے ۔
سپریم کورٹ نے 14 نومبر 2023 کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں عدالت نے کہا کہ الزامات سنجیدہ ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، درخواست گزار کے مطابق ٹاپ سٹی پر قبضے کے لیے ان کو اور اہل خانہ کو اغوا کیا گیا، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر رینجرز اور آئی ایس آئی حکام کے ذریعے درخواست گزار کے آفس اور گھر پر چھاپے کا الزام ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید پر درخواست گزار کے گھر کا سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کرنے کا بھی الزام ہے ، الزامات سنجیدہ ہیں، انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے معیار پر پورا نہ اترنے پر فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے کہا یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ میں ذمہ داریاں ادا کرنے والے اور جبری گمشدگیوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے سے متعلق جو بیان جاری کیا ہے اس میں تمام قانونی پہلو کوور ہوتے ہیں،سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ہی 24 اپریل کو فوج کی قیادت نے ان الزامات کی تحقیقات کیلئے ایک میجر جنرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی۔انھوں نے کہا کہ بادی النظر میں اس درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اس سے متعلق ہی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تحقیقات کی ہیں۔آرمی ایکٹ کے سیکشن 92 میں کسی بھی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کے 6 ماہ کے بعد اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہو تو ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی نہیں ہوسکتی تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 اور 40 اس سے مستثنیٰ ہے ۔آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوسکتی ہے ۔ کورٹ آف انکوائری ایک تفتیشی عمل ہے ۔
جس طرح سویلین اداروں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جاتی ہے اس طرح فوج میں کورٹ آف انکوائری عمل میں لائی جاتی ہے ۔ اگر فوجی افسر کی جانب سے بدعنوانی یا کرپشن اور اختیارت سے تجاوز کرنے کا معاملہ سامنے آئے تو سیکٹر کمانڈر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیتا ہے ۔کورٹ آف انکوائری کوئی ایکشن لینے کی مجاز نہیں ہے البتہ اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔جس میں ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں ایک عدالت قائم کی جاتی ہے جس میں دو ممبروں کے علاوہ جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے ۔اس عدالت کے سربراہ کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے ۔کسی بھی شخص کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی صورت میں اس فوجی افسر کی گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندراندر چارج شیٹ فراہم کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ملزم پر الزامات کی کاپی بھی فراہم کردی جاتی ہے ۔جب کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گی تو اس میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سربراہ کو پراسیکیوشن کے گواہ کے طور پر پیش کیے جانے کا امکان ہے ۔اس کے علاوہ کورٹ آف انکوائری میں ‘جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بھی مزید گواہوں کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو ‘اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی صفائی میں گواہان بھی پیش کرنا چاہے تو انھیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔