فارم 47سے مسلط حکمرانوں کا اجتماع ایکٹ نہیں مانتے :نعیم الرحمن
لاہور (سیاسی نمائندہ)الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے زیراہتمام لاہور میں \\\'میڈ کون\\\' میڈیکل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے اچھے حالات نہیں ۔پاکستان میں صحت کی سہولیات مخدوش ہیں۔
ملک میں ایک پارٹی نہیں طبقہ کا مسئلہ ہے جو حکومت کرتے ہیں ان کے بچے پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن وہ دوسروں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے ذمہ داری ان پر ہے جن پر ٹیکس کا پیسہ جاتا ہے اور وہ مفاد پرست خاندان ہیں۔بدقسمتی ہے بڑے دعوے کرکے لوگ اقتدار میں آتے ہیں لیکن تعلیم و صحت جیسی سہولیات نہیں دیتے ۔بعد ازاں امیر جماعت اسلامی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر بجلی کے پیسے بڑھا دئیے جاتے ہیں یہ دھبہ ہے ۔ایک صوبہ کو دو ماہ میں ریلیف خیرات کی طرح نہ بانٹیں۔حکومت چاہتی حالات بہتر سمت میں چلیں تو ریلیف دینا پڑے گا۔حکمران عیاشیاں نہیں چھوڑ رہے آئی پی پیز سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں۔میڈ کون میں پنجاب کے پوزیشن ہولڈر اور نمایاں طلبا کو ایوارڈ بھی دئیے گئے ۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومتیں عوام کا سامنا نہ کرسکیں اورخود بلوں میں چلی جائیں تو اجتماع ایکٹ جیسے نام نہاد بل لے آتی ہیں، پرامن احتجاج ہمارا حق ہے ، پندرہ دن رہ گئے ، معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو اسلام آباد میں جہاں چاہیں گے احتجاج ہوگا، ویسے بھی فارم 47سے مسلط حکمرانوں کی کوئی کریبڈیبلیٹی نہیں، یہ عوامی حمایت سے نہیں آئے ، لائے گئے ہیں، ان کے پاس کیے گئے ایکٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اسے مانتے ہی نہیں۔ پہیہ جام ہڑتال کا آپشن زیر غور ہے ،ایک دن سے زیادہ شٹر ڈاؤن کے لیے تاجروں سے مشاوت بھی جاری ہے ، اگر حکومت پھر بھی نہیں مانتی تو بلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرسکتے ہیں، عدالت جانے کا راستہ بھی کھلا ہے ، آئی پی پیز کے کیپیسٹی چارجز ختم کیے جائیں، حکمران اپنی عیاشیاں اور مراعات کم کریں۔ امیر جماعت نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید نے کرپشن کی ہے تو ان کا احتساب ہونا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ سمگلنگ اور کرپشن میں ملوث دیگر سے بھی پوچھ گچھ کی جائے ،پاکستان میں دہشت گردی لانے والوں کا بھی کورٹ مارشل ہونا چاہیے ۔ اگر کرپشن میں ملوث تمام عناصر کا کورٹ مارشل نہیں ہوتا تو فیض حمید کے خلاف کارروائی ایک سیاسی مسئلہ تصور ہو گی۔