حکومت کا سپریم کورٹ کے ججز کی مدت نہ بڑھانے کا فیصلہ
لاہور(محمد اشفاق سے )ممکنہ آئینی ترامیم پر حکومت اور بار کونسل کی کمیٹی نے متعدد شقوں پر اتفاق کرلیا جبکہ متعدد پر اختلاف برقرار ہے ،حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی مدت نہ بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔
صرف وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت 68 سال مقرر کی جائے گی، یعنی وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی مدت ملازمت میں تین سال کا اضافہ کیا جائے گا ،اس حوالے سے پاکستان بار کونسل کی کمیٹی نے حکومتی تجاویز سے مکمل طورپر اتفاق کرلیا ۔ممبر پاکستان بار کونسل ریاضت علی سحر کی زیر صدارت اجلاس میں وائس چیئرمین پاکستان بار فاروق ایچ نائیک ، امجد شاہ، حسن رضا پاشا، طارق آفریدی ، خوشدل خان اور ہارون الرشید بھی شریک ہوئے ۔اجلاس میں حکومتی ترامیم مسودے کی ہر شق کا جائزہ لیا گیا، حکومتی مسودہ میں ترامیم کو بھی زیر غور لایا گیا،اجلاس میں حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی اور حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ہائیکورٹس میں چیف جسٹسز کی تقرری ٹاپ تھری میں سے ہوتی ہے۔
اس لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری بھی ٹاپ تھری سے ہونی چاہیے حکومتی اس مجوزہ ترمیم سے بھی بار کونسل کی کمیٹی نے مکمل طور پر اتفاق کیا جب کہ وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس اور ججز کے طریقہ کار سے متعلق حکومتی تجویز سے پاکستان بار کونسل کی کمیٹی نے اختلاف کیا حکومتی تجویز کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں صدر اور وزیراعظم کو تقرری کا اختیار دیا جس سے بار کونسل کی کمیٹی نے اتفاق نہیں کیا اور پاکستان بار کونسل نے تجویز دی کہ وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس اور ججز کی تقرری کے لیے 4 حکومتی ،4 اپوزیشن اور ایک بار کونسل کا نمائندہ تقرر کرے ۔پاکستان بار کونسل نے ہائیکورٹس کے جج کیلئے عمر کی میعاد کم از کم 40 سال کرنے سے متعلق حکومتی تجویز سے اختلاف کیا پاکستان بار نے کہاکہ ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کے لیے عمر کم ازکم 45 سال ہی رکھیں اس میں ردوبدل کی ضرورت نہیں۔ پاکستان بار کونسل کی کمیٹی نے تجویز دی کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی جائے ۔پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ممبر کو 5 سال کیلئے نا اہل کیا جائے ۔بار کونسل کی کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کرکے حکومت کو بھجوادیں۔