ملک کو مفاہمت کی ضرورت ، پیشرفت ہونی چاہئے

ملک کو مفاہمت کی ضرورت ، پیشرفت ہونی چاہئے

(تجزیہ:سلمان غنی) سیاسی محاذ پر ڈیڈ لاک کے اثرات ہر سطح پر محسوس کئے جا رہے ہیں، کراچی سے لیکر خیبر تک ایک تشویش کی صورتحال ہے کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ جس میں بحرانی یا ہیجانی کیفیت میں ٹھہراؤ آتا نظر آئے ، فریقین نہ تو ملکر رہنے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی کوئی اس صورتحال میں انہیں ہٹانے کی پوزیشن میں ہے۔

 معاشی بحالی اور ترقی کا خواب حقیقت ہے یا مسائل زدہ ، مہنگائی زدہ عوام کی زندگیوں میں ریلیف کے امکانات ہیں، سب کو سب کچھ معلوم ہے اور سیاست میں تشدد کے عنصر کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک بڑا ٹکراؤ اور تصادم سامنے آ سکتا ہے ۔ یہی نوشتہ دیوار ہے جو فریقین برتنے کیلئے تیار نہیں لیکن دوسری جانب آج کے پرخطر حالات میں سنجیدہ حلقوں میں آج بھی یہ تحریک موجود ہے کہ اس  وقت ملک کو بڑی مفاہمت کی ضرورت ہے اس پر پیش رفت ہونی چا ہئے ۔ سیاست میں اختیار کئے جانے والے طرز عمل سے نہ تو ساکھ میں مضبوطی آئے گی اور نہ جمہوری روایات مضبوط ہوں گے اور نہ ہی گورننس کا خواب حقیقت بن سکے گا۔

سب کو ایک ایک قدم پیچھے آنا پڑے گا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سب اپنی اپنی آنکھوں سے تباہی و بحرانوں کا عمل دیکھ رہے ہیں، اس پر افسوس کا اظہار بھی کر رہے ہیں مگر صورتحال کے سدباب کیلئے ایسا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں اوریہی سب سے بڑا سیاسی المیہ ہے ۔ ایسی کیفیت میں راستہ نکالنے کی ذمہ دار ی ہمیشہ سیاستدانوں پر ہوتی ہے وہ سیاسی طرزعمل اختیار کرکے مسائل کا سیاسی حل پیش کرتے ہیں تب مسئلہ کا حل نکل پاتا ہے ۔ جمہوریت میں جب معاملات ڈیڈلاک کا شکار ہوئے تو دو بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ نے زخم کھانے کے بعد چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے ، طے پایا کہ ایک دوسرے کو گرانے یا ہٹانے کیلئے زور آزمائی کی بجائے صبر سے کام لیں گے ، ایک دوسرے کے کردار کو تسلیم کیا جائے گا مگر یہ دونوں جماعتیں کیا ملیں ایک تیسری جماعت میدان میں اتری ، اس نے دونوں کو ٹارگٹ کرلیا ۔

وہ اقتدار میں آئی تو سمجھا گیا کہ یہ جماعت بڑے ڈھنگ سے حکومت کرے گی۔ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی محاذ آرائی مزید عروج پر پہنچی تو پھر اسے اتارنے اور گرانے کیلئے صف بندی عمل میں آئی ۔ اس کا عدم اعتماد کی صورت میں حکومت سے جانا تو ہوگیا ، مگر اس نے ہار تسلیم نہ کی ، اب اس نے حکومت کی بجائے ریاست کو ہی ٹارگٹ کر لیا ، اس محاذ آرائی کا شاخسانہ 9 مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے آیا ۔ تحریک انصاف نے ہمیشہ احتجاج کو اپنی اہمیت کا ذریعہ بنایا اور آج بھی ان کی پہچان یہی ہے ، لیکن نئی پیدا شدہ صورتحال میں اب اس کا مقابلہ حکومت سے نہیں بلکہ ریاست سے نظر آ رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں خطرناک صورتحال یہی نظر آ رہی ہے نہ تو پی ٹی آئی پسپائی کیلئے تیار ہے اور نہ ہی ریاست اپنی رٹ پر کمپرومائز کررہی ہے ۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی تو انتظامیہ نے روایتی حکمت عملی کے تحت یہاں کنٹینر لگاکر راستوں کو بند کرنا شروع کر دیا اور انہوں نے کہا کہ کسی کو اسلام آباد میں غیرمعمولی اور ہنگامی کیفیت طاری کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

جواز بنایا گیاکہ اسلام آباد میں اہم سفارتی سرگرمیاں ہونے جا رہی ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہے لہٰذا احتجاج کو موخر کریں مگر پی ٹی آئی 22 اگست کے احتجاج کے موخر کرنے کے عمل کے بعد سے اب تک اداروں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔حکومت کا کہناتھاکہ احتجاج کیلئے آنیوالوں میں مسلح جتھے اور خصوصاً افغانی موجود تھے ، لہٰذا وزیراعلیٰ گنڈاپور اپنے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور ہمارا امتحان نہ لیں لیکن وزیراعلیٰ اپنی حکمت علی کے تحت اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب رہے ، ڈی چوک کی بجائے انہوں نے اپنا رخ پی کے ہاؤس کیا اور وہاں پہنچنے کے بعد ان کے گم ہونے کی خبریں عام ہوئیں ۔ ایک طرف یہ لڑائی ہے تو دوسری جانب اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم اور ان میں اہم ممالک کی لیڈر شپ کی آمد یہاں امن اور سازگار ماحول ریاست کی ضرورت ہے اور اس پر کسی سیاست کا بظاہر کوئی جواز نہیں مگر شاید پی ٹی آئی اس کو حکومت کی بڑی کمزوری سمجھتی ہے ۔ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ۔اس صورتحال کا تجزیہ یہی ہے کہ کوئی کسی کو نہ تو پچھاڑ سکتا ہے اور نہ کسی کا کردار ختم کرسکتا ہے ۔ لہٰذا وقت کی آواز یہی ہے کہ انتشار اور محاذ آرائی کی بجائے اتحاد و یکجہتی کی طرف بڑھیں یہی ملک کے مفاد میں ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں