کالج واقعہ افواہ سازی کا شاخسانہ
لاہور (کرائم رپورٹر ، نمائندہ دنیا ، دنیا نیوز) لاہور میں نجی کالج میں ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ، بلکہ یہ سوشل میڈیا پر افواہ سازی کا شاخسانہ نکلا، واقعہ سے منسوب طالبہ نے تحریری بیان میں من گھڑت افواہیں پھیلانے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
فرسٹ ائیر کی طالبہ اور اسکے والدین نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ 2 اکتوبر کو گھر میں بیڈ سے گری جسکے باعث پہلے جنرل ہسپتال، 3 اکتوبر کو کینٹ میں موجود برین اینڈ سپائن کلینک کے ڈاکٹر صابر حسین سے علاج کروایا اور بعدازاں 4 اکتوبر کو ماڈل ٹاؤن میں اتفاق ہسپتال سے علاج شروع کیا، سانس کی تکلیف پر وہ آئی سی یو میں بھی رہی اور 11 اکتوبر کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی۔تحریری بیان کے مطابق 11 اکتوبر کو ڈاکٹرز نے اسے ڈسچارج کرتے ہوئے 15 روز آرام کا مشورہ دیا تھا۔ دوسری جانب ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائم سرکل نے نجی تعلیمی ادارے میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کی ڈس انفارمیشن پھیلانے کی تحقیقات کیلئے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 رکنی ٹیم تشکیل دید ی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی بنائی گئی اعلٰی اختیاراتی کمیٹی نے منگل کا دن اسی معاملے کی انکوائری میں گزارا۔سول سیکرٹریٹ میں اعلیٰ سطح کمیٹی کا اجلاس ہوا ،تمام عوامل کو تفصیلی طور پر دیکھا گیا ،کمیٹی نے 36افراد کے بیانات قلمبند کیے جن میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، ڈائریکٹر نجی کالج عارف چودھری، پرنسپل کالج ڈاکٹر سعدیہ جاوید، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، سکیورٹی انچارج نجی کالج ، ریسکیو آفیسر شاہد اور 28 طلبہ شامل ہیں ۔ سیکرٹری داخلہ پنجاب کی سربراہی میں کمیٹی متاثرہ طالبہ کے گھر پہنچی اور طالبہ اور والدین کا بیان قلمبند کیا۔