ٹرمپ کی دھمکیاں فلسطینیوں کو مرعوب نہیں کرسکتیں
(تجزیہ: سلمان غنی) نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی تحکمانہ انداز ان کے عزائم کی خبر دے رہا ہے ، خصوصاً ان کی جانب سے آئندہ کی امریکی انتظامیہ میں اپنے معاونین کے انتخاب سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ مستقبل کا امریکا ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں مبتلا نظر آئے گا۔
انتخاب جیتنے کے بعد انہوں نے دوسری بار مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کے حوالہ سے واضح موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے صدارت سنبھالنے سے پہلے حماس نے یرغمال رہا نہ کئے تو قیامت برپا ہو جائے گی۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے اسی طرح کی دھمکی یہ کہتے ہوئے دی تھی کہ یرغمال رہا نہ ہونے کی صورت میں مشرق وسطیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی ان کا یہ انداز اور ان کے یہ الفاظ ان کی مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے پالیسی اور خصوصاً فلسطین کے حوالہ سے ان کے احساسات و خدمات کا آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں جنگوں کے خاتمہ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فلسطین میں جنگ بندی کو یقینی بنائیں گے اور جنگوں کا خاتمہ یقینی بنائیں گے لہٰذا تاثر یہ بن رہا تھا کہ مشکل صورتحال میں برسراقتدار آنے والے صدر ٹرمپ اپنی ترجیحات میں امریکا کے سلگتے مسائل خصوصاً معاشی صورتحال ہوشربا مہنگائی کے عمل امیگریشن کے ایشو پر توجہ دے کر امریکا کے اندر استحکام یقینی بنائیں گے اور امریکا کی سرپاور کی حیثیت قائم کرتے ہوئے دنیا میں امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے لیکن ان کی طرف سے آنے والے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مسائل کا حل طاقت اور قوت کے ذریعہ ممکن بنا سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے ان کا طرز عمل حقیقت پسندانہ ہونے کی بجائے جارحانہ ہے کیا وہ جارحانہ انداز اختیار کرکے حماس کو دباؤ میں لا پائیں گے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ اب انسانیت کا مسئلہ بن چکا ہے ،جہاں تک یرغمالیوں کی رہائی کے عمل کا سوال ہے تو حماس نے ایسا اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت کیا ،اب بھی وہ جنگ بندی کے عمل سے یرغمالیوں کی رہائی کا عزم ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں ،ٹرمپ کی دھمکیاں عرب حکمرانوں کو تو متاثر کرسکتی ہیں مگر فلسطینیوں کی جدوجہد اور کاز پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں۔