صوابی میں پی ٹی آئی کے بڑے جلسے سے گنڈاپور حکومت کو خطرہ

صوابی میں پی ٹی آئی کے بڑے جلسے سے گنڈاپور حکومت کو خطرہ

(تجزیہ: سلمان غنی) پی ٹی آئی کی جانب سے 2024کے انتخابی نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آج ملک بھر میں احتجاج کی کال دی گئی ہے اور اس ضمن میں اپنی تنظیموں کے عہدے داران اور۔۔۔

 پارلیمنٹ کے اراکین کو اپنے اپنے مقامات پر احتجاجی پروگرام کی قیادت کے لئے کہا گیا ہے فی الحال تو احتجاجی سرگرمیوں کا مرکز پختونخوا اور خصوصاً صوابی میں لگتا نظر آ رہا ہے جہاں پختونخوا کے صدر جنید اکبر خان اور وزیراعلیٰ علیامین گنڈا پور نے احتجاجی ریلیوں کی کال دے رکھی ہے لیکن بڑا سوال یہ ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک قومی جماعت کے طور پر پی ٹی آئی کا احتجاج پختونخوا تک ہی کیونکر نظر آتا ہے اور پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں اس حوالہ سے گہما گہمی کیونکر نظر نہیں آتی ،اس کی بڑی وجہ یہ کہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور ان کے پاس اس حوالے سے وسائل بھی ہیں تاہم دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب جہاں سے پی ٹی آئی نے خاطر خواہ ووٹ بھی لیا ہے وہاں تنظیمی صلاحیتوں کا فقدان ہے ، پی ٹی آئی کے دو متحرک لیڈر حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال روپوش ہیں جبکہ پنجاب سطح کی قیادت خصوصاً یاسمین راشد ، محمود الرشید، اعجاز چودھری ،عمر چیمہ جیل میں ہیں پی ٹی آئی نے اپنی جماعت کی ایک متحرک خاتون عالیہ حمزہ کو پنجاب تنظیم میں چیف آرگنائزر تو بنایا ہے مگر ان کا اثر و رسوخ پنجاب کی سطح پر نہیں اور نہ ہی وہ احتجاج کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ احتجاجی عمل پختونخوا تک ہی محدود ہوگا البتہ پنجاب کی سطح پر احتجاجی عمل علامتی ہوگا بڑے احتجاج کے امکانات نہیں اور اس حوالہ سے انتظامی ہتھکنڈے اور خوف و ہراس کو بھی ایک وجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

جہاں تک انتخابی عمل اور اس کی شفافیت کا سوال ہے تو 2024کے انتخابات بھی ماضی سے مختلف نہیں اور اکثر لوگوں کی رائے میں یہ 2018کا ہی تسلسل ہے ، تاہم 8فروری کے انتخابات کو سبھی نے تسلیم نہ کیا ہوتا تو آج مرکز اور صوبوں میں حکومتیں اور اسمبلیاں نظر نہ آتیں عجب رویہ یہ ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی جے یو آئی والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب وہ انہیں اسمبلیوں میں حلیف لیکر بیٹھے ہیں ہر طرح کی تنخواہوں اور مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں اگر پی ٹی آئی والے مسلم لیگ ن کو فارم 47کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں تو ن لیگ والے انہیں 2018میں آر ٹی ایس بند ہونے کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں لہٰذا جب تک سب اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی نہیں کرتے ملک میں سیاسی انتشار سے نجات ممکن نہیں ،احتجاجی سیاست ماضی سے پی ٹی آئی کی سیاسی طاقت رہی ہے ،ایک وقت تھا کہ احتجاجی سیاست کے پیچھے تھپکی اور کسی اور کا ایجنڈا تھا لہٰذا حکومتوں کے خلاف یہ کامیاب نظر آتے تھے اور اب کے حالات میں احتجاج اس لئے کارگر نہیں رہا کہ اب پہلے والی بات اور صورتحال نہیں ،تاہم بانی پی ٹی آئی کو نئی قیادت سے توقعات ہیں، خصوصاً جنید اکبر پختونخوا کے محاذ پر طاقت کے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرے ہیں اور ان کے لئے چیلنج بھی بڑا ہے ،اگر وہ پختونخواکے سیاسی محاذ پر بڑا احتجاج کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر علی امین گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ خطرے میں چلی جائے گی جس کے آثار نظر آ رہے ہیں بلکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پختونخوا میں بڑے احتجاج سے حکومت کو کوئی خطرہ ہو نہ ہو خود پختونخوا کی حکومت خطرے میں آ سکتی ہے ۔دوسری جانب جماعت اسلامی کے احتجاج کو انتظامی مشینری اس لئے مختلف انداز میں دیکھتی ہے کہ ان سے یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ اپنے احتجاجی عمل کو آئین قانون کے باہر لاتے ہوئے ہنگامی صورتحال طاری کریں گے اپوزیشن جماعتیں احتجاج تو کرنے کا کہتی نظر آتی ہیں مگر وہ اس حوالہ سے پی ٹی آئی سے مل کر میدان میں آنے کو تیار نہیں اور یہ امر خود پی ٹی آئی کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں