قومی اتفاق رائے :بلاول بیڑا اٹھانے کو تیا رتو بات بن سکتی

(تجزیہ :سلمان غنی) پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے دھشت گردی کے خاتمہ کیلئے قومی اتفاق رائے کی بات پر سب مطمئن ہیں مگر اس پر پیش رفت کیسے ہو گی اگر بلاول بھٹو یہ بیڑا نیک نیتی سے اٹھانے کو تیار ہیں۔
تو بات آگے چل سکتی اور بن بھی سکتی ہے مگر ہو گا کیسے ،حکومت سے ایک اور اجلاس کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کیا یہ بلایا جاسکتا ہے اور اچھی بات ہے کہ جو جماعتیں قومی سلامتی کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئیں تو کیا اب وہ آ پائیں گی اور جس بنیاد پر انہوں نے آنے سے انکار کیا تھا کیا حکومت وہ شرائط پوری کر پائے گی ۔یہ وہ سوالات ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے جہاں تک بلاول یہ کہتے ہیں کہ وہ نہ حکومت ہیں اور نہ اپوزیشن تو اس پر تو دو آرا ہیں مگر پیپلزپارٹی آج کی کیفیت میں اگر قومی اتفاق رائے کیلئے کوئی کردار ادا کرنا چا ہے تو اسے روکا تو نہیں جا سکتا مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت کو تو اس پر کوئی اعترض نہ ہوگا مگر یہ اتنا بھی آسان کام نہیں اسلئے کہ حکومت یا اسکے اتحادی کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں کتنے بااختیار ہیں یہ ڈھکا چھپا نھیں لہذا پہلے تو اس نیک کام میں صدر آصف زرداری کو آگے آنا چا ہئے جو وفاق کی علامت کے ساتھ کچھ بڑا کرنے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی پوزیشن میں ہیں باوجود اس امر کے کہ پیپلز پارٹی کی کمان بلاول بھٹو کے پاس ہے مگر عملاً فیصلہ سازی میں اصل کردارصدرزرداری کا ہے لہذا اس سنجیدہ اور پیچیدہ کام کیلئے صدر کی جانب سے بھی تائید آنی چا ہئے جہاں تک دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے اجلاس کا سوال ہے تو بلا شبہ نیا اجلاس بلانے میں کوئی قباحت نہیں لیکن حقیقت یہ ہے۔
کہ پی ٹی آئی اسکے لئے اپنی شرائط پر کاربند نظر آئے گی جن نکات کی بنا پر وہ پہلے نہیں آئی اور پی ٹی آئی کی شرائط کا تعلق حکومت اور اتحادیوں سے زیادہ فیصلہ کن حلقوں سے ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ اس ضمن میں کوئی لچک دیتے نظر نہیں آرہے اور اسکی بڑی وجہ خود بانی پی ٹی آئی کا طرزعمل ہے انکے ٹویٹر اکائونٹس سے ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جس سے مسائل سلجھائو کی بجائے اور الجھاؤ سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں ا ٓجاتی تو اسٹبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں نا صرف ڈیڈلاک ختم ہو جانا تھا اور حکومت کیلئے مسائل کھڑے ہو جانے تھے ۔ پی ٹی آئی سے بائیکاٹ کرانے والوں نے ملک کی بجائے اپنا مذموم کھیل کھیلا اور اب بھی کھیل ر ہے ہیں لہذا جب تک پی ٹی آئی یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ انکا اصل ٹارگٹ کون ہے حکومت یا اسٹبلشمنٹ تب تک وہ کسی بھی ایشو پر یکسو نہیں ہو پائے گی اور اب بھی بلاول بھٹو کی جانب سے آنے والی حقیقت پسندانہ تجویز اور اس پرپیشرفت ممکن نہیں اور جب تک اپوزیشن کو ساتھ لیکر ایشوز پر بات نہیں ہو گی ملک آگے نہیں چل سکے گا ۔