زیادتی کا شکار گونگی، بہری، ذہنی معذور لڑکی کے بیان کے بغیر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا : لاہور ہائیکورٹ
لاہور(محمد اشفاق سے)لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے قراردیا کہ 21 سالہ زیادتی کا شکار گونگی، بہری اور ذہنی معذور لڑکی کا بیان قلمبند کیے بغیر مقدمہ کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کسی کی معذوری کے باعث اسے قانونی سسٹم سے باہر نہیں رکھا جاسکتا۔۔۔
قانون یہ نہیں کہتا کہ معذور شخص اپنے ساتھ بیتے تجربے کو بیان کرنے کے قابل نہیں، عدالتوں کو ایسے افراد کی بات سننے اور انکے تجربات جاننے کے لیے ماہرین کی خدمات لینی چاہیے، متاثرہ ذہنی معذور افراد کے بیان کے لیے مناسب سہولیات دی جانی چاہیے ،آئین کا آرٹیکل 7اور 8 قانون تک سب کو برابر کی رسائی کا حق دیتا ہے ،ٹرائل کورٹ نے ماہر نفسیات یا دیگر ایکسپرٹ کی رائے کے بغیر ہی فیصلہ دیا جو خامیوں کو ظاہر کرتا ہے عدالت نے ملزم محمد رمضان اور سعید اختر کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیکر ٹرائل کورٹ کو متاثرہ لڑکی کا بیان قلمبند کرکے دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزموں کی اپیلوں پر 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ،فیصلے میں لکھا کہ پراسیکیوشن کے مطابق گونگی بہری اور ذہنی معذور لڑکی سے زیادتی کا 23اپریل 2022کو بہاولپور کی مقامی پولیس نے مقدمہ درج کیا اور نومبر 2022کو ٹرائل کورٹ نے گونگی ، بہری اور معذور لڑکی سے زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر ملزم محمد رمضان اور سعید اختر کو عمر قید کی سزا کا حکم سنادیا جس کے بعد ملزمان نے ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردیں جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ متاثرہ لڑکی کے علاوہ وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق لڑکی گونگی بہری اور ذہنی معذور ہے تفتیشی افسر نے لڑکی کی معذوری کے باعث اسکا بیان ریکارڈ نہیں کیا ،دوران ٹرائل پراسیکیوشن نے درخواست دی کہ متاثرہ لڑکی کی گواہی کے لیے ٹیسٹ کرایا جائے ،ٹرائل کورٹ نے متاثرہ لڑکی کا ٹیسٹ کرایا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ لڑکی بیان ریکارڈ کرانے کی اہل نہیں ہے ٹرائل کورٹ لڑکی کے بیان کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنے میں ناکام رہی ،فیصلہ میں کہا گیاکہ ٹرائل کورٹ نے ماہر نفسیات یا دیگر ایکسپرٹ کی رائے کے بغیر ہی فیصلہ دے دیا ،ایکسپرٹ کی رائے کے بغیر ہی نتیجے پر پہنچنا بہت سی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے قانون یہ نہیں کہتا کہ معذور شخص اپنے ساتھ بیتے تجربے کو بیان کرنے کے قابل نہیں ، عدالتوں کو ایسے افراد کی بات سننے اور انکے تجربات جاننے کے لیے ماہرین کی خدمات لینی چاہیے ذہنی اور معذور افراد کے حقوق کے لیے بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں 1948 میں انسان حقوق کے بین الاقوامی ادارے نے ڈکلیئریشن جاری کیا کہ سب کے حقوق برابر ہیں آئین کا آرٹیکل 7اور 8 قانون تک سب کو برابر کی رسائی کا حق دیتا ہے عدالتی فیصلے میں بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے فوجداری کیسز میں متاثرہ معذور افراد کے بیان کو انکی حالت کے باعث مسترد نہیں کیا جائے گااصولی طور پر معذوری قانونی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے ۔عدالت نے فیصلے میں کہاکہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کو متاثرہ خاتون کو دوبارہ طلب کرنا چاہیے ٹرائل کورٹ ماہرین کی رائے میں متاثرہ لڑکی کے بیان کے لیے متبادل انتظامات کرے اگر مثاترہ لڑکی کا بیان ہو جاتا ہے تو ٹرائل کورٹ معاملے کو دوبارہ قانون کے مطابق دیکھے عدالت نے ملزم محمد رمضان اور سعید اختر کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیکر ٹرائل کورٹ متاثرہ لڑکی کا بیان قلمبند کرکے دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیدیا۔