دہشت گردوں کیخلاف آپریشن افغان انتظامیہ نے بھی مدد کی

دہشت گردوں کیخلاف آپریشن افغان انتظامیہ نے بھی مدد کی

(تجزیہ:سلمان غنی) پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی آ رہی ہے اور پاکستان کی فورسز زیرو ٹالرنس کے تحت دہشت گردوں ان کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں اپنے انجام سے دوچار کرنے کے مشن پر کاربند ہی اور اس حوالہ سے اس کے آپریشن نتیجہ خیز بن رہے ہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ دہشت گردوں کو ان کے انجام پر پہنچانے کا یہ عمل علاقہ میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے مترادف ہے لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کب تک نتیجہ خیز ہوگا ۔ اس حوالہ سے اہم بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ حال ہی میں نائب وزیراعظم اسحق ڈار اور ان کے وفد کے دورہ افغانستان کے دوران افغان انتظامیہ سے طے پایا تھا کہ افغان سرحد پر دراندازی کے مرتکب افراد کو ان کے انجام پر پہنچانے میں پاکستانی فورسز سے تعاون ہوگا اورآپریشن کو اس سلسلہ کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ افغان انتظامیہ نے افغان سرزمین پر سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کو یہ باور کرا رکھا ہے کہ انہیں اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اور افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لئے استعمال بند کرنا ہوگا کیونکہ یہ امر ا ور یہ عمل خود افغان انتظامیہ کی رٹ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے اور خود ہمسایہ ممالک کو بھی اس حوالہ سے افغانستان کی انتظامیہ سے شکایات پیدا ہوئی ہیں لہٰذا ہم اپنی سرزمین کو بھی دہشت گردی سے پاک کریں گے اور افغان سرحد پر موجود دہشت گرد خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروپ اور تنظیم سے ہو ان کا تحفظ نہیں کیا جائے گا اور پاکستان کو ملنے والی اس یقین دہانی کے بعد پاکستان نے اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے آپریشن کا سلسلہ وسیع تر اور تیز کیا ہے اور اس کے مثبت نتائج ملنا شروع ہوئے ہیں اور 54خوارج کو ان کے انجام پر پہنچانے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ اس حوالہ سے پاکستان کو خود افغان انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔

سکیورٹی ذرائع بتا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف طے شدہ حکمت عملی میں اب ڈرونز سمیت متعدد جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لیا جا رہا ہے جس سے دہشت گردوں کی نشاندہی ان کے ٹھکانوں اور ان کے تربیتی مراکز کا پتہ چل رہا ہے اور اس حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کی تنظیمیں شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوکراپنی نئی پناہ گاہیں ڈھونڈ رہی ہیں ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن سے بچنے کے لئے دہشت گردوں کی تنظیموں میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور وہ اپنی جان بچانے کے لئے سکیورٹی اداروں سے روابط قائم کرتے بھی نظر آ رہے ہیں مگر انہیں باور کرا دیا گیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر جب تک ہتھیار نہیں ڈالیں گے ان سے بات چیت نہیں ہو گی۔ دوسری جانب حکومت کے ذمہ دار ذرائع یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ہتھیار اٹھانے والا کوئی بھی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی بھی تنظیم یا گروہ سے ہو وہ ریاست دشمن کہلائے گا اور اس کے خلاف ریاست کی طاقت استعمال ہوگی پاکستان کی سکیورٹی کا عزم ہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی ہے اور پاکستانی فورسز نئے جوش اور جذبہ کے تحت دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے سرگرم ہیں ۔حکومتی ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے سدباب کے لئے پاکستان اور افغان انتظامیہ کے درمیان طے شدہ حکمت عملی کے مطابق ہی پاکستانی فورسز سرگرم عمل ہیں اور اس حوالہ سے افغان انتظامیہ کا غیر اعلانیہ تعاون بھی انہیں مل رہا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردی کے حوالہ سے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے ضمن میں بعض عالمی قوتوں کی تھپکی اور تعاون بھی حاصل ہے اور پاکستان نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر افغان سرزمین کا دہشت گردی کے حوالہ سے استعمال بند ہو تو وہ دنوں میں افغان بارڈر سے ہر طرح کی دہشت گردی کا سدباب کر سکتے ہیں لہٰذا افغان انتظامیہ اور پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی کابل ملاقات کو اسی تناظر میں لیا جا رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں