حکومت پی ٹی آئی مذاکرات ڈیل نہیں قومی مفاہمت کیلئے ہونگے
(تجزیہ:سلمان غنی) سیاسی محاذ پر حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کی خبریں چل رہی ہیں جس کی بنیاد وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ان کے حالیہ قومی اسمبلی میں خطاب میں دی جانے والی پیشکش کو بنایا جا رہا ہے جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی ۔
پارٹی حلقے تو مذکورہ پیشکش کو عمران خان کی واضح رضامندی سے مشروط قرار دے رہے تھے لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوتی ہے تو مذاکرات کا عمل نتیجہ خیز ہو پائے گا اور کیا حکومت پی ٹی آئی مذاکراتی عمل خفیہ رہ سکے گا ا ور آج کیا وجہ ہے کہ جو جماعت اور جو لیڈر شپ کسی بھی پس پردہ ڈیل یا مفاہمت کے لئے تیار نہ تھی کن وجوہات کی بنا پر مذاکراتی عمل میں پیش رفت کے لئے تیار ہوئی جہاں تک اس کی ٹائمنگ کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ مذاکراتی عمل میں سنجیدگی بھارت کی پاکستان کے خلاف جنگی مہم جوئی کے تناظر میں پیدا ہوئی جس میں وزیراعظم کی پہلے بیرسٹر گوہر کو ٹیلی فون کال اور بعد میں ان کی جانب سے قومی اسمبلی میں باضابطہ پیشکش بنی ۔چنانچہ ضروری ہو گیا ہے۔
کہ ایک طرف جہاں پاکستان کی مسلح افواج یکسوئی اور سنجیدگی سے بھارت کی جانب سے ممکنہ خطرات کے توڑ کے لئے اپنی حکمت عملی پر کار بند ہوں تو دوسری جانب سیاسی محاذ پر ایک مربوط سیاسی نظام کے تحت قومی ہم آہنگی کی خو شگوار فضا مستقل برقرار رہنا ضروری ہے ۔ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمانہ کوششوں اور کاوشوں کے اس عمل میں دونوں جانب بعض لوگوں کے تحفظات بھی ہیں اور بلاشبہ حکومت میں بعض عناصر نہیں چاہیں گے کہ اس مذاکراتی یا مفاہمتی عمل کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بڑا ریلیف ملے اور انہیں سیاسی کردار کا موقع ملے اور ادھر پی ٹی آئی میں بھی بعض عناصر ایسے ہیں جو اس مفاہمتی عمل کو سیاسی نقصان سے تعبیر کرتے نظر آئیں گے ۔
واقفان حال کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی قطعی طور پر مشروط مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور وہ حکومت سے تب تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک انہیں یقین نہ ہو کہ حکومت انہیں کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے لہٰذا اب ایک جنگی ماحول میں دیکھنا یہ ہوگا کہ فریقین کس حد تک مذاکرات اور مفاہمتی عمل میں سنجیدگی دکھاتے ہیں ویسے تو اس صورتحال میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وزیراعظم نے جس کیفیت میں پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی کیا انہیں غیر سیاسی قوتوں کی تائید بھی حاصل ہے پاکستان نے اپنے دشمن پر وقتی فتح تو حاصل کر لی ہے مگر کیا آئندہ حالات میں یکجہتی کی فضا قائم رہ پائے گی اس کا انحصار خود سیاستدانوں اور حکمرانوں پر ہوگا اس لئے یہ ذمہ داری فریقین پر ہوگی کہ موجودہ فضا میں سیاسی مفاہمت کے امکانات پر فوری توجہ دینی چاہئے ۔جہاں تک بیرسٹر گوہر کے اس بیان کا تعلق ہے کہ کوئی ڈیل نہیں ہو گی اور کس چیز کی ڈیل ہو گی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ پیش رفت کسی ڈیل کے لئے نہیں بلکہ ایک خاص ماحول میں قومی مفاہمت کے جذبہ کو فروغ دینے اور ملک کو ہر طرح کے خطرات اور خدشات سے پاک کرنے کے لئے ہو رہی ہے ۔