ہائیکورٹ : گواہوں کے بیانات انگریزی کیساتھ اردو میں تحریری کرنے کا حکم

ہائیکورٹ : گواہوں کے بیانات انگریزی کیساتھ اردو میں تحریری کرنے کا حکم

لاہور(محمد اشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر کی ٹرائل کورٹس کو گواہوں کے بیانات ان کی موجودگی میں انگریزی زبان کے ساتھ اردو میں تحریر کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔

 جسٹس طارق ندیم نے قرار دیا کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان میں بیانات تحریر کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا 1973کا نوٹیفکیشن موجود ہے لیکن پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں آج تک اردو زبان سے متعلق نوٹیفکیشن پر عمل نہیں ہوا اور انگریزی زبان میں ہی بیانات لکھے جاتے ہیں، عدالت نے رجسٹرار کو عدالتی فیصلے کی کاپی تمام ججز اور وزارت قانون و انصاف کو بھجوانے کی ہدایت کردی۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے محمد عرفان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق 22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ،محمد عرفان عرف پومی پر شہری عبد الناصر کو گولیاں مار کر قتل کرنے کا مقدمہ درج ہے ،جسٹس طارق ندیم نے فیصلے میں لکھا کہ موجودہ کیس میں دو چشم دید گواہ موجود تھے ، اپیل کنندہ کے وکیل کے مطابق چشم دید گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے ، دونوں گواہوں کے بیانات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا کہ پریذ ائیڈنگ آفیسر نے بیان لکھتے وقت انگلش ٹائپنگ کی غلطی کی ،ہم نے فرد جرم اور گواہوں کے بیانات کے اردو ترجمے کا جائزہ لیا عدالت کے سامنے یہ بات آئی کہ اردو ترجمہ عدالتی ریڈر نے کیا ،ضابطہ فوجداری کے تحت بیانات لکھتے وقت ملزم یا اسکا نمائندہ موجود ہو، قانون کی منشا یہی ہے کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان کا استعمال ہو ،قانون بڑا واضح ہے کہ بیانات گواہوں کی مادری زبان میں ہی لکھے جائیں گے لیکن پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں یہ رواج ہے کہ بیانات انگریزی میں ریکارڈ کر کے ملزم کی عدم موجودگی میں اسکا اردو ترجمہ کیا جاتا ہے ،موجودہ کیس میں اردو ترجمہ گواہ کی عدم موجودگی میں کرنے سے اس میں تضاد آیا ،پراسیکیوشن میڈیکل اور چشم دید گواہوں کے بیانات کی روشنی میں اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہی ،عدالت ملزم کی سزا کو سزائے موت سے عمر قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں