چینی پہلے برآمد ،اب درآمد:جب وافر تھی تو باہر بھیجی،اب قیمتوں میں استحکام کیلئے5لاکھ ٹن منگوائی جارہی ہے:وزارت قومی غذائی تحفظ،نرخوں میں روزانہ اضافہ
اسلام آباد(نامہ نگار،دنیا نیوز،اے پی پی) وفاقی کابینہ نے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا جبکہ پہلے حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔منگل کو وزارت قومی غذائی تحفظ و خوراک کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومت نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ اُس وقت کیا تھا جب چینی وافر مقدار میں دستیاب تھی۔
اب چینی کی قیمتوں میں استحکام کے لئے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کی جا رہی ہے ۔بیان میں کہاگیا چینی کی درآمد حکومتی شعبے کے ذریعے کی جائے گی جس کے لئے تمام انتظامات مکمل، فوری عمل درآمد شروع کیا جا رہا ہے ۔ بیان میں کہا گیا چینی کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے کے لئے یہ اقدام اٹھایا گیا،چینی کی درآمد کا طریقہ ماضی کی حکومتوں سے مختلف اور واضح طور پر بہتر حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے ۔ماضی میں اکثر چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قومی خزانے پر بوجھ ڈال کر سبسڈی پر انحصار کیا جاتا تھا۔ادھر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے ملک میں چینی کی صورتحال اور درآمدی ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو یہاں کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ نائب وزیر اعظم کے آفس سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں وزیر خوراک، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق باجوہ، سیکرٹری وزارت خوراک، وزارت صنعت و پیداوار کے سینئر حکام اور صنعت کے نمائندوں نے شرکت کی۔
کمیٹی نے ملک بھر میں مستحکم سپلائی کو یقینی بنانے اور سستی قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے 5 لاکھ ٹن تک چینی درآمد کی منظوری دی۔ نائب وزیر اعظم نے قیمتوں میں استحکام اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔یاد رہے رواں سال مارچ میں 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے چند ہفتے بعد ہی وفاقی حکومت نے ملک میں قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے خام چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا سرکاری بیان میں کہا گیا ہے خام چینی (شکر) کی درآمد سے ملک میں قیمتوں میں کمی لانے میں مدد ملے گی اور مستقبل کی پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی، کیونکہ اسے مقامی طور پر ریفائن کرکے چینی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے چینی برآمد کرنے کی اجازت اس وقت دی گئی تھی جب صنعت نے مقامی قیمتوں کو 145 سے 150 روپے فی کلو کے درمیان رکھنے کا وعدہ کیا تھا تاہم چینی کی قیمت 180 سے 200روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے ۔
لاہور،کراچی (دنیا نیوز،آئی این پی )چینی کی قیمتیں روزانہ اضافے کے ساتھ کنٹرول سے باہر ہونے لگیں۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں چند روز کے دوران چینی کی فی کلو قیمت میں 18 سے 20 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کے بعد شہر بھر میں چینی 195 سے 200 روپے فی کلو تک فروخت ہونے لگی ہے جبکہ کراچی میں فی کلو چینی کی قیمت 185 روپے ،پشاور اور کوئٹہ میں 190 روپے ہوگئی ہے ۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق لاہور میں 50 کلو چینی کی بوری کی قیمت 9100 روپے تک جا پہنچی ہے جب کہ ہول سیل مارکیٹ میں فی کلو چینی 182 روپے میں دستیاب ہے ۔ عام دکانوں اور ریٹیل مارکیٹس میں یہی چینی صارفین کو 195 سے 200 روپے فی کلو میں فروخت کی جا رہی ہے ۔سپلائی چین متاثر ہونے سے دام میں تیزی برقرار ہے ۔دوسری جانب لاہور میں چینی کی صورتحال پر انتظامیہ نے پھرتیاں دکھانا شروع کر دیں، انتظامیہ تھوک مارکیٹ اور شوگر ملز سے مہنگی ملنے والی چینی سستے داموں فروخت کرانے کے لئے سرگرم ہو گئی۔چیئرمین گروسرز اینڈ ہول سیلرز عبدالرؤف ابراہیم کے مطابق کراچی میں فی کلو چینی کی قیمت ایک ہفتے میں 8 روپے بڑھی ہے ۔ شوگر مافیا رمضان کے بعد محرم میں بھی چینی کی قیمتوں کو بڑھانے میں مصروف ہے ۔
انہوں نے کہا ہول سیل مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے ریٹیل مارکیٹ میں چینی کے دام مسلسل بڑھ رہے ہیں، شوگر کارٹل کو لگام نہ ڈالی گئی تو ریٹیل مارکیٹ میں چینی کے دام 2 سو روپے ہوجائیں گے ۔چینی ڈیلر کے مطابق پشاور میں پرچون مارکیٹ میں چینی 190 روپے فی کلو میں فروخت کی جا رہی ہے ، ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 180 روپے جبکہ 50 کلو بوری کی قیمت 9 ہزار مقرر ہے ۔کوئٹہ میں چینی فی کلو 190 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے ، ہول سیل مارکیٹ میں چینی فی کلو 180 روپے ہے ۔شوگر ملز سے چینی کااوسط نرخ 175 روپے فی کلو تک ہے ، تھوک مارکیٹ میں چینی کا نرخ 178 سے 180 روپے کلو تک ہے ، پرچون مارکیٹ میں چینی 185 سے 200 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے ۔پرچون کے لئے چینی کا چار ماہ پرانا سرکاری ریٹ 164 روپے کلو مقرر ہے ، دکانوں پر 164 روپے کلو چینی فروخت نہ کرنے والوں کے خلاف انتظامیہ کارروائی کرنے لگی۔انتظامیہ کی کارروائی پر اکثر دکانداروں نے چینی فروخت کرنا ہی چھوڑ دی، چند ہفتے سے چینی کی طلب بڑھنے سے چینی کاریٹ بڑھا دیا گیا، چینی کی قیمت کا تعین کرنے کے لئے بنائی کمیٹی دو ماہ سے زائد عرصے میں بھی کام مکمل نہ کر سکی۔