قتل پر 100 سال قید کی سزا پانے والے مجرم کی اپیل خارج

قتل پر 100 سال قید کی سزا پانے والے مجرم کی اپیل خارج

لاہور(محمد اشفاق سے)لاہور ہائیکورٹ نے قتل کے مقدمے میں 100 سال قید کی سزا پانے والے مجرم کی اپیل خارج کردی، جسٹس امجد رفیق نے قراریا کہ دوران ٹرائل ڈیڑھ برس کی قید کو صرف ایک مرتبہ کاؤنٹ کرنے کے خلاف ملزم کی درخواست کو محکمہ داخلہ نے ایڈووکیٹ جنرل کے لاء اینڈ پارلیمنٹری محکمے کو بھجوایا۔۔۔

 حالانکہ پنجاب رولز آف بزنس 2011 کے تحت فوجداری معاملہ ہونے کے باعث درخواست پبلک پراسیکیوٹر محکمے کے پاس جانی چاہیے تھی ،اتھارٹیز کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے تھا اگر حکومتی محکمے اپنا کام درست کریں تو عدالتوں کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی، ملزم کا کیس کسی ناول جیسا لگتا ہے ۔ ملزم صغیر حسین کی درخواست پر 11صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا، ملزم صغیر حسین سمیت دیگر کے خلاف لاہور کے تھانہ وحدت کالونی میں 24اگست 1989 کو قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ٹرائل کورٹ نے صغیر حسین کو تین مرتبہ سزائے موت اور ایک مرتبہ عمر قید کی سزا کا حکم سنایا ، مجرم صغیر حسین نے اپنی رہائی کے لیے ایک مرتبہ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا درخواست گزار کے مطابق وہ 1989 سے جیل میں قید ہے ۔

لاہور ہائیکورٹ نے مجرم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کی مجرم نے سزا کم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا سپریم کورٹ نے مجرم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا ، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ تین بار عمر قید کی سزا الگ الگ چلے گی مجرم کو دیگر دفعات کے تحت بھی ایک مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مجرم کی کل سزا 100برس ہوگئی ،فیصلے کے مطابق پاکستان پریژن رولز1978 کے تحت مجرم نے سزا معافی کی درخواست دی 100برس سزا ہونے کے باعث مجرم صغیر حسین 59 برس کی سزا معاف کرانے میں کامیاب ہوگیا، مجرم کی تاحال ساڑھے چار برس کی قید باقی ہے ،مجرم صغیر حسین کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کی دوران ٹرائل ڈیڑھ برس کی قید کو صرف ایک مرتبہ کاؤنٹ کیا گیا ہے صغیر حسین نے درخواست دی کہ اسکی دوران ٹرائل قید کو چار مرتبہ کاؤنٹ کیا جائے ، یہ کیس کسی ناول کی کہانی صورتحال ہے ،پریزن رولز کے تحت ایک بار عمر قید کی سزا25سال ہوگی پندرہ برس سزا کاٹنے کے بعد ملزم سزا معافی کی اپیل دائر کرنے کا حقدار ہو جاتا ہے اگر پریزن رولز موجودہ کیس پر لاگو کریں تو ملزم کو کم ازکم 60 برس سزا کاٹنے کے بعد اپیل کا حق ہوگا ،یہ سزا معافی سپیشل معافی ہے جو حکومت عوامی تہواروں پر کرتی ہے موجودہ کیس میں 59 سال کی سزا معاف کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا آئی جی جیل خانہ جات چیک کرسکتے ہیں ، عدالتی معاون کے مطابق کوئی ریکارڈ اور قانونی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں جس کے تحت سزا معاف کی گئی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ملزم کی سزا کو سنگل سزا کے طور دیکھا جائے گا اگر سزا سنگل سزا ہے تو پھر دوران ٹرائل قید کو بھی ایک بار ہی گنا جائے گا ،محکمہ جیل خانہ جات ملزم کی بقیہ سزا معافی کے لیے کیس حکومت کو بھجوا سکتا ہے ، حکومت کو ملزم کی سزا معافی کا اختیار ہے ، سزا معافی کی درخواست مرحوم کے قانونی ورثا کی اجازت کے بغیر نہیں دی جاسکتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں