زیادتی کی تحقیقات جنسی جرائم سے متعلق خاتون ٹرینڈ آفیسر ہی کرسکتی : لاہور ہائیکورٹ
لاہور(محمد اشفاق سے)لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے خواتین اور بچوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے اینٹی ریپ ایکٹ کی قانون سازی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا خواتین سے زیادتی کے مقدمے کی تحقیقات جنسی جرائم سے متعلق خاتون ٹرینڈ آفیسر ہی کر سکتی ہے۔
عدالت نے متاثرہ خاتون کے مقدمہ کی تحقیقات جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے کروانے کی درخواست مسترد کردی ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے یاسمین بی بی کی درخواست پر نو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ زیادتی کے ہر مقدمے کی تفتیش جنسی جرائم کے سپیشل یونٹ کے سپرد نہیں ہوسکتی ،درخواست گزار نے 2022 میں تین افراد پر جنسی زیادتی کا مقدمہ درج کرایا ، درخواست گزار کے مطابق ملزموں نے اسکی نازیبا ویڈیوز بھی بنائی ہیں۔ درخواست گزار نے تفتیشی پر جانبدار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے تفتیش تبدیلی کی درخواست دی ۔ ڈی پی او حافظ آباد نے تفتیش تبدیل نہیں کی جس پر عدالت سے رجوع کیا گیا ۔ عدالت نے ڈی پی او کو پندرہ دن میں درخواست پر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ۔ ڈی پی او نے عدالتی حکم پر معاملہ ڈسٹرکٹ سٹینڈنگ بورڈ کے سامنے رکھا ۔ڈی پی او نے درخواست منظور کرتے ہوئے تفتیش تبدیل کردی ۔فیصلہ میں کہا گیاکہ درخواست گزار کے مطابق اسکا مقدمہ اینٹی ریپ ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے ۔ درخواست گزار کے مقدمے کی تفتیش جنسی جرائم کے سپیشل یونٹ کو کرنی چاہیے ۔ درخواست گزار کے مطابق صرف ایک خاتون تفتیشی افسر ایسے مقدموں کی تفتیش نہیں کر سکتی ۔درخواست گزار نے ڈی پی او سے دوبارہ تفتیش کے لیے مکمل ٹیم بنانے کی درخواست کی ۔ ڈی پی او نے درخواست گزار کی درخواست مسترد کردی ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق اینٹی ریپ ایکٹ کا سیکشن9 جنسی جرائم کے سپیشل یونٹ سے متعلق ہے ،اس قانون سازی کا مقصد جنسی جرائم کے کیسز کی درست اور تیز رفتار تفتیش کرنا ہے ۔خواتین اور بچوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے اینٹی ریپ ایکٹ تاریخی قانون سازی ہے ۔ اینٹی ریپ ایکٹ کے سیکشن 9 کے تحت تفتیش کے لیے ایک جنسی جرائم کا سپیشل یونٹ قائم ہوگا۔ سیکشن 9 کے تحت یونٹ میں جنسی جرائم سے نمٹنے کے لیے آفیسر کو ٹریننگ دی جائے گی۔ سیکشن 9 کے تحت تحقیقاتی ٹیم میں ایک خاتون آفیسر لازمی ہوگی، جنسی جرائم کے سپیشل یونٹ کا تصور جے آئی ٹی سے لیا گیا ہے، ایس ایس او آئی یو میں صرف وہ آفیسر ہونگے جنہوں نے جنسی جرائم سے متعلق تحقیقات کی ٹریننگ لی ہوگی، اینٹی ریپ ایکٹ میں قانون ساز کی منشا یہ ہے کہ اگر خاتون یا بچہ متاثرہ ہے تو کوئی خاتون آفیسر بھی تحقیقات کرسکتی ہیں، ہمارا قانون سپیشل اور حساس کیسز میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کی اجازت دیتا ہے، عدالت درخواست گزار کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ ریپ کے مقدمے کی تفتیش ایس ایس او آئی یو کرے۔ موجودہ کیس میں ایڈووکیٹ جنرل نے رپورٹ دی کہ خاتون تفتیشی افسر جنسی جرائم کی تحقیقات کے لیے مکمل ٹرینڈ آفیسر ہے، عدالت نے خاتون آفیسر کو تفتیش کے لیے درست تسلیم کرتے ہوئے اعتراضات مسترد کردئیے۔